۳۔ اس سے مراد غیر بلیغ ردی کلام ہے۔[1]
تنوع کا یہ اختلاف صرف فروش میں پایا جاتا ہے۔ فروش کا ایک بڑا حصہ اسی نوع پر مشتمل ہے۔
مثال:… اس نوع کی مثال قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ ﴿وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّونَ﴾ [زخرف: ۵۷] ہے۔ اس میں لفظ ’’یصدون‘‘ کو صاد کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
پہلی قراء ات (ضمہ والی) کا معنی ہے: ’’وہ دوسروں کو ایمان لانے سے روکتے ہیں۔‘‘
دوسری قراء ات (کسرہ والی) کا معنی ہے: ’’وہ خود ایمان لانے سے رک جاتے ہیں۔‘‘
اور ان دونوں قراء ات کا حاصل معنی ایک ہی ہے۔
اس طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ [ابراہیم: ۳۰] اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’لیضلوا‘‘ کو امام ابن کثیر مکی اور امام ابو عمرو بصری ’’لِیَضِلُّوْا‘‘ پڑھتے ہیں، جبکہ باقی قراء سبعہ ’’لِیُضِلُّوْا‘‘ پڑھتے ہیں۔
پہلی قراء ت کا معنی ہے: ’’وہ گمراہ ہو گئے ہیں۔‘‘
دوسری قراء ت کا معنی ہے: ’’وہ دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔‘‘
ان دونوں قراء ات کا حاصل معنی ایک ہی ہے اور دوسری قراء ت پہلی کی نسبت زیادہ ابلغ ہے۔
|