میں سے ایک آج مولانا امین احسن کے نام سے مشہور ہیں۔[1]
مدرسہ سے فارغ ہوتے ہی مولانا اصلاحی رحمہ اللہ 1922ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں سہ روزہ ’مدینہ‘ بجنور کے نائب مدیر مقرر ہوگئے۔یہ اخبار ان دنوں تحریک خلافت کا علمبردار اور سیاست میں جمعیت علماءئے ہند اور کانگریس کا ہم نوا تھا۔اخبار کے مالک مجید حسن نے بچوں کےایک ہفت روزہ رسالہ ’غنچہ‘ کی ادارت بھی مولانا کے سپرد کر دی۔مولانا اصلاحی نے مولانا عبد الماجد دریا بادی رحمہ اللہ اور مولانا عبد الرحمٰن نگرامی رحمہ اللہ کی زیر نگرانی شائع ہونے والے ہفت روزہ ’سچ‘ میں بھی کام کیا۔[2]
1925ء میں مولانا اصلاحی رحمہ اللہ صحافت کو خیرباد کہہ کر مولانا فراہی رحمہ اللہ کی خواہش پر علوم قرآن میں تخصص کی غرض سے ہمہ وقت مدرسۃ الاصلاح سے وابستہ ہوگئے،مدرسہ میں تدریسی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ کے ساتھ مولانا فراہی سے درس قرآن لینے لگے۔انہوں نے مولانا فراہی رحمہ اللہ سے صرف علومِ تفسیر ہی نہیں پڑھے بلکہ استاد کے طریقہ تفسیر میں مہارت بھی حاصل کی،علاوہ ازیں عربی شاعری کی مشکلات میں ان سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ سیاسیات اور فلسفہ کی بعض کتب بھی ان سے پڑھیں۔[3]مولانا فراہی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد 1930ء کے اواخر میں مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری(1353ھ)سے نخبۃ الفکر اور جامع ترمذی کا درس لیا۔[4]
1935ء میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کی غیر مطبوعہ تصنیفات کی تصحیح وطباعت،ان کی عربی کتب کے تراجم اور ان کے قرآنی افکار کی اشاعت کے لئے مدرسۃ الاصلاح میں ’دائرہ حمیدیہ‘ کا قیام عمل میں آیا۔مطبوعات کے اُردو ترجمہ اور دائرہ کے اُمور کی عمومی نگرانی مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی ذمہ داری قرار پائی۔اس ادارہ کے ترجمان کے طور پر جنوری 1936ء میں ماہنامہ الاصلاح کا اجراء ہوا تو اس کی ادارت بھی مولانا اصلاحی کے سپرد ہوئی۔[5]
جماعت اسلامی کی تشکیل 26 اگست 1941ء کو ہوئی،مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اگرچہ تاسیسی اجتماع میں شریک نہ ہوئے،لیکن ان کے مخلصانہ تعلق کے پیش نظر ان کو جماعت کے ارکان میں شامل کر کے الٰہ آباد،بنارس،گورکھپور،فیض آباد ڈویژن اور صوبہ بہار کا صدر مقام سرائے میر کو قرار دے کر مولانا اصلاحی کو اس کا نائب مقرر کیا گیا۔کچھ ہی عرصہ میں انہیں مولانا مودودی رحمہ اللہ اور ارکانِ شوریٰ کے ہاں اتنا اعتماد حاصل ہوگیا کہ انہیں مولانا مودودی رحمہ اللہ کے جانشین کی حیثیت حاصل ہوگئی۔بعض اختلافات کی بناء پر 18 جنوری 1958ء کو آپ جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔[6]
مولانا فراہی رحمہ اللہ کی محنتوں کانتیجہ تھا کہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے ایک ایسی تفسیر قرآن لکھی جو حقیقی معنوں میں فکرِ فراہی کی غمازی تھی۔تفسیر میں صرف ہونے والی اپنی اور استاد کی محنتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’تفسیر تدبر قرآن پر میں نے اپنی زندگی کے پورے 55 سال صرف کیے ہیں،جن میں 23 سال صرف کتاب کی تحریر وتسوید
|