معًا. لكنهم لم ينسبوا الحصب إليها،بل نسبوه إلى حاصب وساف. والحاصب يستعمل للهواء والرّيح الشّديدة التي ترمي بالحصباء والسّحاب الذي يرمي بالبرد والثّلج،فقال سبحانه وتعالى:﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا﴾. [1]وقال المفسرون فيه:أي ريحًا تقلع الحصباء لقوّتها ... ثم إنهم نسبوه إلى ساف. ومحال أن يحمل هذا اللفظ على الطّير. فإن السّافي يستعمل للرّيح التي تذري الغبار والورق اليابس." [2]
کہ ان اشعار کو غور سے پڑھو،یہ لوگ،جو واقعہ کے عینی شاہد ہیں،چڑیوں اور پتھروں کا ذکر ساتھ ساتھ کرتے ہیں،لیکن یہ کہیں نہیں کہتے کہ یہ پتھر چڑیوں نے پھینکے،بلکہ سنگ باری کو ’حاصب‘ اور ’ساف‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔اس وجہ سے اب ان دونوں لفظوں کی حقیقت دریافت کرنی چاہیے۔عربی میں ’حاصب‘ اس تند ہوا کو کہتے ہیں جو کنکریاں اور سنگریزے لا کرپاٹ دیتی ہے اور اس بادل کو بھی کہتے ہیں جس سے اولوں اور برف کی بارش ہوتی ہے،قومِ لوط کے عذاب کے متعلّق قرآن میں ہے:﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا﴾کہ ہم نے ان پر حاصب بھیجی۔مفسرین نے ’حاصب‘کے معنی ایسی تند ہوا کیلئے ہیں جو زور و شدت کی وجہ سے زمین کی کنکریاں اور سنگریزے اٹھا لیتی ہیں ...دوسرا لفظ ’ساف‘ ہے۔چڑیوں کیلئے اس لفظ کا استعمال کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔سافی اس ہوا کو کہتے ہیں جو گرد و غبار،خس و خاشاک اور درختوں کی پتیاں اڑاتی ہوئی چلتی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ خود بھی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اور سابقہ قوموں پر عذاب کے واقعات ایک نہایت ہی عام اور اسباب کے تحت ہونے والے معاملات میں سے تھا۔مولانا فرماتے ہیں:
"فإن قيل:فهذا أمر وقع حسب العادة،فلم يكن حريّا بالذّكر،قلنا:قد ذكر اللّٰه تعالى إهلاك قومِ نوح ولوط وعاد وثمود بأسباب عاديّة. ولا شك إن في ذلك لآيات على رحمته ونقمته. " [3]
کہ اگر کہا جائے کہ یہ تو روز مرہ کا ایک معمولی اور عام واقعہ ہوا پھر اس اہتمام اور اس شان کے ساتھ اس کے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم کہتے ہیں:قرآن مجید میں اقوامِ نوح،لوط اور عاد وثمود کی بربادی کے واقعات عام اسباب کے تحت ہی بیان کیے گئے ہیں۔حق بات یہ ہے کہ یہ واقعات اگرچہ عام اسباب کے دائرہ سے باہر نہیں،لیکن ان میں خدا کی رحمت و نقمت کی نہایت اہم داستانیں پنہاں ہیں۔
چڑیوں کے بارے میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ وہ سنگ باری کیلئے نہیں بلکہ مقتولین کی لاشیں کھانے کیلئے آئی تھیں۔مولانا فرماتے ہیں:
"إنما قلنا إن اللّٰه تعالى أرسل طيورا لتطهير ناحية مكة من حيف القتلى. والمشهور أن الطير أرسلت لرميهم بالحجارة. فاعلم أن النظر في الروايات يكشف عن فريقين متبائنين في تصوير هذه القصة. وقبل
|