Maktaba Wahhabi

524 - 535
اپنے اس اصول کے تحت بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآن کے بعض مقامات کی تفسیر بیان کی ہے،اس حوالے سے خاص طور پر مولانا کی سورۂ فیل کی نادر تفسیر علماء کے مابین معروف اور محلِّ نظر ہے۔مولانا قرآن کی آیات کی تفسیر میں احادیث کے مقابلے میں ثابت شدہ تاریخ کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کسی آیت کی تفسیر میں احادیث اور مولانا کے نزدیک ثابت شدہ تاریخ میں اختلاف ہو جائے تو وہ اپنی ثابت شدہ تاریخ کو اختیار کرتے ہیں۔مولانا فرماتے ہیں: "وكذلك في هذه السورة. كانت قريش ترميهم بحجارة ينفحونهم بها عن الكعبة،فجعلها اللّٰه حجابا لما أرسل على أصحاب الفيل من الحجارة من السماء. وكما نسب اللّٰه تعالى الرمي في بدر إلى نفسه في قوله:﴿وَلَكِنَّ اللّٰهَ رَمَى،فهكذا ههنا نسب إلى نفسه أنه جعلهم كعصف مأكول. فلا شكّ إنها كانت من الآيات البيّنات. فإن منافحة قريش كانت أضعف من أن يفل هذا الجيش،فكيف يحطمهم حتى صاروا كعصف مأكول." [1] کہ بعینہٖ یہی صورت واقعۂ فیل میں بھی نظر آتی ہے۔قریش سنگ باری کر کے ابرہہ کی فوج کو خانہ کعبہ سے دفع کر رہے تھے۔اللہ عزو جل نے اسی پردہ میں،ان پر آسمان سے سنگ باری کر دی۔چناچہ جس طرح غزوۂ بدر کی سنگباری کو اس نے اپنی طرف منسوب کیا ہے:﴿وَلَكِنَّ اللّٰهَ رَمَى﴾اسی طرح کفار کو کھانے کے بھس کی طرح بنا دینا بھی اپنی قوتِ قاہرہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔کیونکہ قریش کیلئے ابرہہ کے لشکرِ گراں کو پارہ پارہ کر دینا تو درکنار اس کو پیچھے ہٹا دینا بھی آسان نہ تھا۔ اصحاب فیل پر آسمان سے پتھروں کی بارش کو مولانا فراہی رحمہ اللہ زبانی کلامی معجزہ تو قرار دیتے ہیں لیکن اپنے تاویلی مزاج سے مجبوری کے ہاتھوں،اس کی بھی ایسی ہی تاویل کرتے ہیں کہ وہ عقل و منطق کے مطابق ہو جائے۔مولانا لکھتے ہیں: "وبالجملة فلا بدّ أن اللّٰه تعالى رماهم بالحصباء والغبار من السماء والهواء،كما رمى قوم لوط،فأصابت أجسامهم من كل جهة. وكان ذلك بتصريف ملائكة اللّٰه،وهذا هو المراد بجنود اللّٰه. [2] کہ الغرض تمام قرائن و حالات کی شہادت یہی ہے کہ اللہ عزو جل نے قوم لوط کی طرح اصحاب فیل پر بھی تند ہوا کا آسمانی عذاب بھیجا،جس نے ان پر ہر طرف سے گرد و غبار کے ساتھ کنکروں اور پتھروں کی بارش کی،یہ سب اللہ کے فرشتوں اور دوسرے الفاظ میں اس کی مخفی افواج کی کارفرمائی ہے۔ یہاں بھی مولانا نے اسے خواہ مخواہ فرشتوں کی کاروائی قرار دینے میں تکلّف سے کام لیا ہے حالانکہ ان کے بیان کے مطابق یہ عمل ایک انتہائی نارمل چیز ہے۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "فإن تأملت فيما مرّ من كلام العرب وجدت الذين شهدوا الواقعة ذكروا الطّير وحصب الحجارة
Flag Counter