بارش ہو رہی تھی،تھم گئی۔
اس سےیہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طوفان کو روکنے کے لیے اللہ عزو جل نے دوسری نرم ہوا چلائی تھی لیکن ہمارے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے۔‘‘ [1]
قرآن کے الفاظ﴿وَقِيلَ يَاأَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَاسَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ﴾اس بارے صریح ہیں کہ قومِ نوح پر نازل ہونے والا عذاب پانی کا تھا کیونکہ جب اللہ عزو جل نے اس عذاب کے سلسلہ کو بند کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے لیے مذکورہ بالا الفاظ منقول ہیں۔اگر ان پر ’ہوا‘ کا عذاب نازل ہوتا تو ساتھ ہی یہ بھی مذکور تھا کہ’ اے ہوا!تو بھی سکون میں آ جا!‘ اور ایسے کسی لفظ کا قرآن نے تذکرہ نہیں کیا ہے۔﴿فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ﴾کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ آسمان نے اپنا پانی چھوڑا اور﴿وَفَارَ التَّنُّورُ﴾کے الفاظ میں یہ رہنمائی ہے کہ زمین نے بھی اپنا پانی چھوڑا اور قرآن کے الفاظ﴿فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ﴾اس پر صریح دلالت کر رہے ہیں کہ ہلاکت آسمان اور زمین کے پانی کی کثرت سے ہوئی ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے﴿وَفَارَ التَّنُّورُ﴾کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد سمندروں کا ابلنا ہے۔مولانا کی رائے یہاں بھی قومِ نوح کی ہلاکت میں زمین کے پانی چھوڑنے کے معجزے سے انکار کی ہے۔مولانا کی یہ تاویل قرآن کے صریح الفاظ کے اس قدر خلاف ہے کہ اس پر فرقہ باطنیہ کی تاویل کا سا گمان ہوتا ہے۔قرآن نے زمین کے پانی چھوڑنے کیلئے﴿وَفَجَّرْنَ الْأَرْضَ عُيُونًا﴾کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں کہ جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
قومِ نوح کی ہلاکت پانی کے عذاب سے ہوئی ہے،اس کی صریح دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ عزو جل نے قرآنِ مجید میں چھ مقامات پر وضاحت فرمائی ہے کہ اس قوم کو پانی میں غرق کر دیا گیا۔اللہ عزو جل بار بار یہ فرما رہے ہیں کہ میں نے فلاں قوم کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کر دیا اور مولانا کا اصرار ہے کہ نہیں،اللہ عزو جل نے اس قوم کو ’ہوا‘ کے عذاب سے ہلاک کیا ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآن کے الفاظ
﴿فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ﴾سے یہ دلیل پکڑنے کی کوشش کی ہے کہ یہ عذاب ’ہوا‘ کا عذاب تھا کیونکہ طوفان ہوا کا ہی ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کی اس آیتِ کریمہ کو اگر اسی آیت کے سیاق و سباق میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں طوفان سے مراد پانی کا طوفان ہے نہ کہ ’ہوا‘ کا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ()فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ﴾[2]
کہ ہم نے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا،وہ ان میں ساڑھے نو سو سال رہے،پس انہیں(پانی کے)طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔پس ہم نے انہیں اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس کشتی کو جہان والوں کیلئے ایک نشان بنا دیا۔
|