کہ یہ قطعی ہے کہ اس باب میں جو روایات منقول ہیں ان کاصحت کے ساتھ مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے۔
2۔ سورۂ عبس کے شانِ نزول کے سلسلہ میں امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما،سیدنا ابن عباس،انس،ضحاکاور ابومالکوغیرہ سے جو روایات مروی ہیں،ان میں ہے کہ سیدنا ابن اُم مکتوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر،جبکہ آپ کچھ کفار سرداروں سے محوِ گفتگو تھے،قرآن کی تعلیم دینے کی درخواست کی۔
ان روایات کو بیان کرنےکے بعد مولانا لکھتے ہیں:
"ولا يخفى أن هذه الرّوايات كلّها تنتهي إلى الّذين لم يكن واحد منهم شهد الواقعة. فلو صحّت لم يكن إلا استنباطًا،لا خبرًا. والظّاهر من اختلاف هذه الرّوايات أنّها ظنون وأوهام ناشئة مما توهّموا من التأويل،فوضعوا له قصّة وخبرا افتراء على من أسندوها إليه. فكيف يوثق بها وأسانيدها ضعيفة جدّا." [1]
کہ ان تمام روایات پر غور کرنے سے ایک اَمر واضح ہے کہ یہ سب روایتیں ایسے لوگوں سےمروی ہیں جن میں سے کوئی بھی شریکِ واقعہ نہیں تھا۔پس اگر ان کی صحت تسلیم بھی کرلی جائے تو بھی ان کی نوعیت استنباط کی ہوگی،خبر کی نہ ہوگی۔پھر ان میں باہم اس قدر اختلاف ہے کہ ان کی حیثیت صر ف اوہام کی رہ جاتی ہے۔واہمہ نے ایک تاویل اختراع کی اور جھٹ اس کیلئے ایک قصّہ کا جامہ تراش لیا گیا اور اس کی نسبت ان لوگوں کی طرف کردی گئی جن کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔باعتبارِ سند یہ تمام روایتیں سخت ضعیف ہیں۔
3۔ لفظ﴿وَاَبَا﴾کی لغوی تشریح کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
"فلا يصحّ ما يُروى من أن أبا بكر وعمر رضي اللّٰه عنهما اعترفا بجهلهما به،أوّل هذين الخبرين منقطع،والثّاني مضطرب." [2]
کہ پس یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی کہ سیدنا ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما،جیسا کہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ سے ناواقف تھے۔پہلی روایت منقطع ہے اور دوسری مضطرب۔
4۔ واقعۂ ابرہہ سے متعلّق لکھتے ہیں:
"كل ما ذكروا من سبب مجيء أبرهة لغضبه على العرب،ومن فرار أهل مكة،ومما جرى بين أبرهة وعبد المطّلب لم يثبت من جهة السند. فإن كل ذلك لا يجاوز ابن إسحاق. ومعلوم عند جهابذة أهل الحديث أنه يأخذ الروايات من اليهود وممن لا يوثق به. ثم يبطل هذه الأمور روايات أخر،ويبطله ما ثبت عندنا من عادات العرب." [3]
|