امام قرطبی رحمہ اللہ(671ھ)فرماتے ہیں:
’’مذکورۃ الصّدر حدیث میں اس سنتِ نبوی کی مخالفت سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا ہو مگر قرآن میں اس کا تذکرہ نہ ہو،خوارج اور شیعہ وغیرہ کے گمراہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ظواہر قرآن سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور احادیثِ نبویہ کو ترک کرتے ہیں جن میں قرآن کریم کی شرح و تفسیر درج ہوتی ہے۔‘‘[1]
امام الحرمین الجوینی رحمہ اللہ(478ھ)نے بیان کرتے ہیں:
"علم التفسير عسير يسير،أما عسره فظاهر من وجوه،أظهرها:أنه كلام متكلم لم يصل الناس إلى مراده بالسماع منه ولا إمكان الوصول إليه بخلاف الأمثال والأشعار ونحوها،فإن الإنسان يمكن علمه منه إذا تكلّم بأنه يسمع منه أو ممن سمع منه،وأما القرآن فتفسيره على وجه القطع لا يعلم إلا بأن يسمع من الرسول." [2]
کہ تفسیر کا علم دشوار بھی ہے اور سہل بھی۔اس کی دشواری کئی وجوہ سے عیاں ہے اور منجملہ ان وجوہ کے نمایاں تر وجہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک ایسے متکلّم کا کلام ہے کہ نہ تو انسان کو اس کی مراد تک متکلم ہی سے سن کر پہنچنا نصیب ہوا ہے او رنہ اس متکلم تک ان کی رسائی ممکن ہے او ربخلاف اس کے امثال،اشعار اور ایسے ہی دیگر انسانی کلاموں کی بابت یہ بھی ممکن ہے کہ انسان خو دان کے متکلّموں سےسن لے یا ایسے لوگوں سے سن سکے جنہوں نے خاص متکلم کی زبان سے سنا ہو،لیکن قرآنِ کریم کی تفسیر قطعی طور پر بجز اس کے نہیں معلوم ہوسکتی کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا گیا ہو۔
حدیث کی تشریعی حیثیت کے حوالے سے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ(1979ء)رقمطراز ہیں:
’’یہی محمدی تعلیم وہ بالا تر قانون ہے جو حاکم اعلیٰ یعنی اللہ عزو جل کی مرضی کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ قانون محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کو دو شکلوں میں ملا ہے۔ایک قانون جو لفظ بہ لفظ خداوندِ عالم کے احکام وہدایات پر مشتمل ہے،دوسرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ یا آپ کی سنت جو قرآن کے منشاء کی توضیح وتشریح کرتی ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے سوا ان کا کوئی کام نہ تھا ... آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پورا کام جو 21 سالہ پیغمبرانہ زندگی میں آپ نے انجام دیا وہ سنت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکمِ اعلیٰ کے قانون برتر کی تشکیل وتکمیل کرتا ہے اور اسی قانونِ برتر کا نام اسلامی شریعت ہے۔‘‘[3]
’قرآنِ مجید کی صحیح تفسیر کا معیار،سنتِ رسول‘ کے عنوان سے مولانا اکرام اللہ ساجد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’رسول کی سنت کوقرآن مجید کی ابدی،دائمی،متعین اور غیرمتبدل تعبیر و تفسیر کی حیثیت حاصل ہے۔یہی سنتِ رسول قرآنِ مجید کی تفسیر کی صحت وسقم جانچنے کا واحد معیار ہے او رجس سے ذرہ برابر انحراف کی سزا اس دنیا میں گمراہی اور آخرت میں جہنّم ہے۔چنانچہ جب اس سنت سے منہ موڑ لیا گیا،قرآنِ مجید کو اس سے الگ کردیا گیا تو گویا ڈوری ٹوٹ گئی اور موتی بکھر گئے۔پھر فتنے نمودار ہوئے،فرقے وجود میں آئے اور گروہ بندیاں ظہور پذیر ہوئیں۔انہی کو پالنے کیلئے قرآنِ مجید کی غلط،من مانی تفسیریں ہوئیں
|