بیان وشرح پر مشتمل وحی بھی عطا ہوئی ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قرآن کے عام کو خاص اور خاص کو عام قرار دیں،قرآن سے زائد احکام بیان فرمائیں۔اور جن اُمور کا قرآن میں ذکر نہیں ہے ان کو قانونی طور پر اُمت پر نافذ کریں۔تو گویا سنت وجوبِ حکم اور لزومِ عمل میں وحی متلوّ قرآن کے مماثل ہے۔
اس حدیث کی تشریح میں امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قوله((أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَه مَعَهُ))يحتمل وجهين من التأويل،أحدهما:أن معناه أنه أوتي من الوحي غير المتلوّ مثل ما أعطي من الظاهر المتلوّ،والثاني:أنه أوتي الكتاب وحيا يتلى وأوتي من البيان مثله أي أذن له أن يبين ما في الكتاب فيعمّ ويخصّ ويزيد عليه ويشرع ما في الكتاب فيكون في وجوب العمل به ولزوم قبوله كالظاهر المتلوّ من القرآن وقوله:((رَجُلٌ شَبْعَانُ ...))يحذّر بذلك مخالفة السّنن التي سنّها رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم مما ليس له في القرآن ذكر على ما ذهب إليه الخوارج والرّوافض فإنهم تعلّقوا بظاهر القرآن وتركوا السّنن التي قد ضُمّنت بيان الكتاب فتحيّروا وضلّوا. "[1]
مزيد فرماتے ہیں:
"وفي الحديث دلالة على أنه لا حاجةَ بالحديث إلى أن يعرض على الكتاب فإنه مهما ثبت عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم كان حجّة بنفسه،قال:فأمّا ما رواه بعضهم أنه قال إذا جاءكم الحديث فأعرضوه علىٰ كتاب اللّٰه فإن وافقه فخذوه وإن لّم يوافقه فردّوه فإنّه حديث باطلٌ لا أصلَ له." [2]
کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث کو کتاب اللہ پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں،کیونکہ جب بھی کوئی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے تو وہ بنفسہٖ حجت ہوتی ہے۔جہاں تک اس روایت کا تعلّق ہے تو بعض لوگ پیش کرتے ہیں کہ ’’حدیث کو کتاب اللہ پر پیش کرو،اگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے لے لو اور اگر اس کے مخالف ہو تو ردّ کردو۔‘‘ تو یہ حدیث باطل ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔
علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ(1911ء)نے بھی((وَمِثْلَه مَعَهُ))کی بھی تقریباً یہی تشریح کی ہے،فرماتے ہیں:
"أي الوحي الباطن غیر المتلوّ أو تأویل الوحي الظاهر وبيانه بتعمیم وتخصیص وزیادة ونقص أو أحکاما ومواعظ وأمثالا تماثل القرآن في وجوب العمل أو في المقدار."[3]
کہ اس سے وحی باطنی غیر متلوّ مراد ہے یا ظاہری وحی کی تشریح وتوضیح اور اس کا بیان،مثلاً خاص کو عام کرنا،عام کو خاص کرنا اور زیادتی وکمی کرنا۔یا وہ احکام،مثالیں اور نصیحتیں مراد ہیں جو وجوبِِ عمل میں قرآن کی مثل ہیں یا قدر ومنزلت کے کے اعتبار سے مماثلت مراد ہے۔
|