Maktaba Wahhabi

461 - 535
ہم دُنیا کی ادنیٰ قوموں کی نسبت بھی نہیں کر سکتے،تو قریش اور بنی اسمٰعیل کی نسبت کس طرح کر سکتے ہیں؟ جن کا تمام تر سرمایۂ فخر ونازش ہمیشہ شہسواری،شمشیر زنی اور قدر اندازی ہی رہا ہے۔یہاں تک کہ غیروں کو بھی اعتراف ہے کہ اسی جوہر کی بدولت انہوں نے کبھی اپنی آزادی پر آنچ آنے نہیں دی۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ قوموں کی تاریخ سے واقفیت کے متعلّق رقمطراز ہیں: ’’قرآن میں عرب کی پچھلی قوموں مثلاً عاد،ثمود،مدین اور قوم لوط وغیرہ کی تباہی کا ذکر ہے۔ساتھ ہی ان کے معتقدات،ان کے انبیا کی دعوت اور اس دعوت پر ان کے ردّ عمل کی طرف اشارات ہیں۔علاوہ ازیں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی عرب میں آمد،ان کی قربانی،ان کی دعوت،ان کے ہاتھوں تعمیر بیت اللہ اور ان کی برکت سے عرب کے اخلاقی،تمدنی،معاشرتی،معاشی حالات کی تبدیلی کا مختلف اسلوبوں سے بیان ہے۔بعد میں قریش نے دین ابراہیم کو جس طرح مسخ کیا اور بیت اللہ کو جو مرکزِ توحید تھا،جس طرح ایک بت خانہ بنایا اور اس کے نتیجے میں جو رسوم اور جو بدعتیں ظہور میں آئیں ان کے جگہ جگہ حوالے ہیں۔ان ساری باتوں کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے ضرورت ہے کہ اس دور کی پوری تاریخ پر آدمی کی نظر ہو۔‘‘[1] اپنی کتاب ’مبادی تدبّر قرآن‘ میں لکھتے ہیں: ’’قرآنِ مجید کے تدبّر میں عہدِ نزولِ قرآن اور قدیم عرب اور ان سے متعلّق اقوام کی تاریخ سے واقفیت بھی ایک ضروری عنصر ہے۔قرآن کی بے شمار آیتیں عرب کی قدیم تاریخ اور اس سے متعلّق اقوام اور جماعتوں کے احوال و ایام کی طرف اشارے کرتی ہیں اور یہ اشارات بالعموم اس قدر مجمل و مبہم ہیں کہ ان کا صحیح تصور ذہن میں قائم ہونا اس وقت تک مشکل ہو جاتا ہے جب تک ان قوموں کی تاریخ سے واقفیت نہ ہو۔‘‘[2] مزید لکھتے ہیں: ’’پھر قرآنِ مجید کے نزول پر پوری چودہ صدیاں گزر چکی ہیں اور ہم کو اسے موجودہ دُنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔قرآن کے عہدِ نزول میں جو واقعات و احوال ہر شخص کے جانے بوجھے ہوئے تھے موجودہ دنیا کیلئے لا معلوم ہیں اور علم و تحقیق کی ترقیوں نے آج کسی امر کے رد و قبول کا معیار اس قدر بلند کر دیا ہے کہ جب تک اس عہد کی پوری دُنیا اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ لوگوں کے سامنے نہ رکھ دی جائے لوگ اس کو کوئی وزن ہی نہیں دیں گے۔ علاوہ ازیں اس عہد کی تاریخ کی بے شمار چیزیں ہم کو اس لیے بھی معلوم ہونی چاہئیں کہ ان کے جانے بغیر قرآنِ مجید کی تعلیمات کا اصل وزن نہیں معلوم ہو سکتا،مثلاً اس عہد کی تمدّنی حالت،اس عہد کے سیاسی رجحانات،اس زمانہ کے مذہبی عقائد و تصورات اور اخلاقی معیارات وغیرہ،نیز زمانۂ نزولِ قرآن میں مختلف قوموں کے باہی تعلقات کی نوعیت،ان کے دستور و مراسم کی کیفیات،ان کے اصنام کی خصوصیات اور تمدن و سیاست پر ان کے اثرات وغیرہ۔‘‘[3]
Flag Counter