کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں:وہ احادیثِ نبویہ جن کو علمائے امت نے قبول کیا،قوموں کے ثابت شدہ ومتفق علیہ حالات اور گذشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تفسیر قرآن میں جا بجا اس اُصول سے استفادہ کیا ہے،مختلف آیات کی تفسیر میں مولانا ادب جاہلی اور قدیم شعراء کے ان اشعار سے بکثرت استدلال کرتے ہیں،جو عربوں کے اخلاق وعادات اور طور طریقوں کو واضح کرتے ہیں۔
واقعۂ فیل کے بارے میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر پر کنکریاں ابابیلوں نے نہیں،بلکہ عربوں نے برسائی تھیں۔عربوں نے اپنی غیرت وحمیت اور مزاج کے مطابق اصحاب الفیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور انہیں مار بھگایا تھا۔وہ ابرہہ اور اس کے لشکر سے ڈر کر غاروں میں نہیں چھپے تھے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدّ امجد عبد المطلب نے ابرہہ سے اپنے جانوروں کو واپس لینے کیلئے ملاقات نہیں کی تھی۔اپنے اس موقف کی دلیل میں مولانا نے قوموں کی ثابت شدہ تاریخ کے اسی اصول سے استفادہ کیا ہے،واقعۂ فیل کے بارے میں مشہور روایات پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ومما يدلّ على كونها من أكاذيب الأعداء أنها ما تعمّدت إلا غضاضةً من العرب وحميّتهم،وإهانةً لرئيسهم عبد المطّلب القرشي،وتنويهًا بحسن خلق أبرهة الحبشيّ،ومسبةً على من هيّجه على هدم الكعبة،وبسطًا لعذره إذ انتصر لكنيسته. فلم يترك الكذّابون شيئًا من الذّلة والمنقصة والعار والشّنار إلا نسبوها إلى العرب وقريش ورئيسها." [1]
خود واقعات کی نوعیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام باتیں دشمنوں کی گڑھی ہوئی ہیں۔ان میں عربی غیرت وحمیت کی علانیہ تحقیر اور قریش کے غیور سردار عبد المطلب کی بے باکانہ توہین کا پہلو بالکل نمایاں ہے۔نیز ابرہہ کے کریکٹر کو بہت شاندار دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔اور ایک شخص پر ایک کنیسہ کی توہین کا الزام تراش کر بیت اللہ الحرام پر اس کے حملہ کو ثابت کیا گیا ہے۔اس پوری داستان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذلت ودناءت اور بے غیرتی وپست ہمتی کا کوئی ایسا الزام نہیں ہے جو عربوں پر عموماً اور قریش اور ان کے سردار پر خصوصاً نہ تھوپا گیا ہو۔
مزيد فرماتے ہیں:
"إنه ليس على وجه الأرض قوم لا يعتقد أنّ معبده بيت اللّٰه. فهل تراهم مع ذلك يتركون معابدهم في أيدي العدوّ،ولا يدفعون عنها. هذا لا يتصوّر من سُكّان السّهول فكيف من قريش،بل سائر بني إسماعيل؟ فإن أفراسهم وجبالهم وأسيافهم ونبالهم كانت لهم أحصن معاقل. ولذلك بقوا على حرّيتهم منذ كانوا،كما اعترف به المؤرّخون الأجانب." [2]
کہ دُنیا کے پردے میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو اپنی عبادت گاہ کو خدا کا گھر نہ سمجھتی ہو،پھر اس سے اس بے حمیتی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ بغیر کسی مدافعت کے،اپنا معبد دشمنوں کے حوالہ کرکے پہاڑوں میں جا چھپے گی۔اس طرح کی بے حمیتی کا گمان تو
|