جسد خاکی کو آپ کے آبائی وطن سہارنپور کے خاندانی قبرستان درہ آلی میں سپرد خاک کیا گیا۔[1]
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے جن شخصیات سے تعلیم وتعلّم کے مراحل طے کیے ان میں سے بڑا نام مولانا فیض الحسن سہارنپوری رحمہ اللہ(1877ء)کا ہے،مولانا فیض الحسن رحمہ اللہ کی صحبت نے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے زندگی پر بہت مثبت اَثرات مرتّب کیے۔
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’مولانا فراہی استاد کی حیثیت سے ان کا نام نہایت ادب واحترام سے لیتے ہیں۔مولانا سہارنپوری کی شعر وشاعری سےبھی لگاؤ تھا۔وہ عربی میں بھی شعر کہتے تھے۔ان کا عربی دیوان موجود ہے جس میں ہر طرح کا کلام ہے۔اغلب ہےکہ ان کی صحبت کے اثر سے مولانا فراہی عربی شاعری کی طرف مائل ہوئے۔
مولانا فیض الحسن سہارنپوری اپنے دور کے اہل کمال میں سے تھے اوراپنے فن میں تو وہ یکتائے روزگار تھے۔ان کاخاص میدان عربی اورقرآن تھا،ان کی تصانیف میں یہی دو مضمون نمایاں ہیں۔پڑھاتے وہ عربی ادب تھے۔خاص کر ادبِ جاہلی پر ان کی نظر وسیع اورگہری تھی۔برِصغیر میں شعرائے جاہلیت اور کلاسیکی ادب کو متعارف کرانا ان کا خاص کارنامہ ہے۔مولانا فراہی نے ان سے عربی کی تکمیل کی۔‘‘[2]
|