3۔ ابولہب کی بیوی کیلئے قرآنِ کریم میں﴿حَمَّالَةَ الْحَطَبِ﴾[1] آیا ہے۔اس کی تفسیر میں متعدّد روایات وارد ہیں۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ان پر یوں محاکمہ کیا ہے:
"اعلم أن معنى الآية الرّابعة أن امرأة أبي لهب تصلى نارًا ذات لهب،وهي حينئذ على هيئة أمة حمّالة للحطب،وليس المراد أنّها كانت تحمل الحطب في الدّنيا. فإن ذلك تأويل بعيد غير صحيح ... ولاستبعاد كونها محتطبة ذهب بعضهم إلى أنّها كانت نمامة،فقيل لها ذلك على وجه الكناية ... ولكنّه لا حاجة إلى المجاز إذا أمكن حمله على الظّاهر مع حسن التأويل ... وكذلك ذهب بعضهم إلى أنّها كانت تأتي بالشّوك،فتُلقيها على طريق الرّسول صلی اللّٰه علیہ وسلم وأصحابه. وهذا هوا اختيار ابن جرير رحمه اللّٰه. ولكنّه بعيد،فإن الّذي يُلقِي الشّوك لا يُقال له:حامل الحطب." [2]
معلوم ہونا چاہئے کہ چوتھی آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ابولہب کی بیوی بھڑکتی آگ میں پڑے گی اور اس وقت اس کی حالت ایندھن ڈھونے والی لونڈی کی سی ہوگی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دُنیا میں ایندھن ڈھوتی تھی۔یہ تاویل نہ صرف بعید بلکہ بالکل غلط ہے ... اس تاویل(دُنیا میں ایندھن ڈھونا)کے بُعد کی وجہ سے بعض لوگوں نے ایک دوسرا مذہب اختیار کیا کہ ابولہب کی بیوی چغل خور تھی،اس بُری عادت كو اس لفظ سے بطریقِ کنایہ ظاہر کیا گیا ہے ...لیکن جب کلام کو حسنِ تاویل کے ساتھ ظاہر پرمحمول کرنا ممکن ہو تو مجازی معنیٰ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ... اسی طرح بعض لوگوں نے کہا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی(اس لئے اسے حمّالة الحطب کہا گیا۔)ابن جریر رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے،لیکن یہ تاویل بھی بہت بعید اَز قیاس ہے۔راستہ میں کانٹے بچھانے والے کو حَامِل الحطّب کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
مذکورہ بالا اقتباسات سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک قبولیتِ روایات کی درج ذیل شرائط و اُصول معلوم ہوتے ہیں:
1۔ ضعیف و موضوع روایات سے اجتناب کیا جائے۔
2۔ وہ تاویل اختیار کی جائے جو سیاق اور حسن نظم سے اقرب ہو۔
3۔ وہ تاویل قبول نہ کی جائے جو بداہۃً بعید او ربالکل غلط ہو۔
4۔ کلام کو حسن تاویل کے ساتھ ظاہر پر محمول کرنا ممکن ہو تو مجازی معنی لینے کی ضرورت نہیں۔
5۔ وہ روایت قبول نہ کی جائے جو از روئے لغت صحیح نہ ہو۔
6۔ مختلف روایات میں اگر تطبیق دی جاسکتی ہو تو بہتر ہے۔
متعدّد روایات میں ترجیح کے یہ نکات،اُصول کی حد تک قبولیت روایات کے سلسلہ میں اہم ہیں۔قدیم مفسرین نے بھی ان کی رعایت رکھی ہے۔مختلف روایات میں تطبیق کی بہترین مثال ’کوثر‘ کی تاویل ہے،جو مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے۔یہ مثال تفصیل کے ساتھ کچھ صفحات پہلے ہیڈنگ:’’مخالفِ قرآن احادیث کو ردّ یا ان کی تاویل کی جائے۔‘‘ کے تحت گزر چکی ہے۔
|