اس بحث کے بعد مولانا نے سیدنا مجاہد رحمہ اللہ کی روایت کو اختیار کیا ہے جس پر یہ اعتراضات وارد نہ ہوتے تھے۔[1]
سورۂ فیل کی تفسیر میں ابرہہ سے عبد المطلب کی ملاقات کی روایات پر مولانا نے یوں تبصرہ کیا ہے:
1۔ یہ روایات ازروئے سند قابل اعتماد نہیں۔یہ ابن اسحٰق(151ھ)پر ختم ہوجاتی ہیں،اور ابن اسحٰق یہود اور غیر ثقہ راویوں سے روایت لے لیتے ہیں۔
2۔ اس موضوع پر موجود دوسری روایات سے ان روایات کی تردید ہوتی ہے۔
3۔ عربوں کا معروف کریکٹر وہ نہیں جو ان روایات سے سامنے آتا ہے۔
4۔ یہ روایات دشمنوں کی وضع کردہ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ان میں عربوں کی غیرت وحمیّت کی تحقیر اور سردار قریش عبد المطلب کی توہین پائی جاتی ہے۔اس کے برعکس ابرہہ کا کریکٹر نہایت شاندار بتایا گیا ہے[2]
اگر کسی آیت کی تفسیر میں متعدّد روایات ہوں تو ان میں سے کسے قبول کیاجائے اور کسے ترک کیاجائے؟ یا ان میں ترجیح یا تطبیق کی کیا صورت ہو؟ اس سلسلہ میں بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ نے متعدّد تصریحات کی ہیں،درجِ ذیل اقتباسات سے ان کی وضاحت ہوتی ہے:
1۔ سورۂ فیل کے ضمن میں لفظِ ’طیر‘ سے متعلّق دو قسم کے بیانات ذکر کرکے لکھتے ہیں:
"والآن ذكر كلا القسمين من الأخبار من تفسير ابن جرير رحمه اللّٰه. وإنّما اقتصرنا عليه،وتركنا المؤلّفات التي تجمع الرّوايات الملفّقة من غير تنبيه على ضعفها وتلفيقها." [3]
کہ اب ہم دونوں قسم کی روایتیں تفسیر ابن جریر سے نقل کرتے ہیں۔ہم نے صرف اسی کتاب پر اکتفا کیا ہے اور قصداً ایسی کتابوں کو نظر انداز کردیا ہے جن میں بغیر کسی جرح و تنقید کے ضعیف و موضوع روایات بھر دی گئی ہیں۔
2۔ ﴿فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ﴾[4] کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"ذهبوا في تأويله إلى قولين،الأول:فأيّ شيء يكذّبك أيّها الإنسان بالدّين؟ اختاره مجاهد... والثاني:فما يكذّبك أيها النّبي الكريم صلی اللّٰه علیہ وسلم بعد ذلك بالدّين؟ وذهب إليه الفرّاء ... فالظّاهر الأقرب من السّياق وحسن النّظم ما ذهب إليه مجاهد مع إبقاء معنى التّكذيب على ما يوجد في كلام العرب." [5]
کہ اس آیت کی تاویل میں دو قول ہیں،1۔اس کا مخاطب انسان ہے۔یہ تاویل مجاہد رحمہ اللہ کی ہے،2۔اس کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔یہ قول فراء رحمہ اللہ(207ھ)کا ہے ... سیاق اور حسنِ نظم سے اقرب تاویل وہی ہے جو مجاہد نے اختیار کی ہے بشرطیکہ تکذیب کو اسی معنیٰ پر باقی رکھا جائے جو کلامِ عرب میں پایا جاتا ہے۔
|