Maktaba Wahhabi

443 - 535
اس کے مثل کوئی اور تفسیر نہیں لکھی گئی لیکن اس میں اکثر حدیثیں ضعیف ہیں،مرفوع حدیث کا حصہ بہت تھوڑا ہے۔ ايك اور مقام پر فرماتے ہیں: "وإذ كان المروي في ذلك عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قليل جدا ولم يكثر فيه أيضا ما روي عن الصّحابة فأضافوا به ما روي عن التّابعين أو تبعهم مع اختلاف الأقاويل بينهم. وعلى هذا صنّف ابن جرير رحمه اللّٰه تفسيره،وهو أحسن التّفاسير حتى قيل أنه لم يصنّف مثله ... وكلاهما متلقى بالقبول بين المسلمين عامة. مع اتّفاق العلماء على أن كليهما يحتوي على الغث السمين،ولا بدّ للناظر فيهما من النقد والإمعان." [1] کہ چونکہ قرآن مجید کی تفسیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرویات بہت کم ہیں اور اقوال صحابہ بھی اس سلسلے میں کچھ زیادہ نہیں،لہٰذا انہوں نے اس میں تابعین اور تبع تابعین کے اقوال،بمعہ ان کے اختلافات،شامل کر دئیے ہیں۔امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر اسی طرز پر لکھی ہے،اور وہ بہترین تفسیر ہے،حتیٰ کہ کہا گیا کہ اس جیسی تفسیر نہیں لکھی گئی ... مسلمانوں میں ان تفسیروں کو حسنِ قبول حاصل ہے،مگر اس پر بھی اتفاق ہے کہ ان میں رطب و یابس ہر قسم کی چیزیں شامل ہیں،اس لئے ان میں نقد و امعان کی بڑی ضرورت ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ ان تفسیری روایات کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر اس طرح واضح کرتے ہیں: "فوجب على من يحاول فهم القرآن أن لا يأخذ من الرّوايات ما يهدم الأصل أو يقلعه فإني رأيت بعض الرّوايات تقلع الآيات وتقطع نظمها إلا أن تؤوّل،ولكن التعجّب ممن يؤوّل الآية ولا يؤوّل الرّواية،وربّما لا يؤوّل الآية بل يرضى بقطع نظامها،والفرع أولى بالقطع ... فينبغي لنا أن لا نأخذ منها إلا ما يكون مؤيّدا للقرآن وتصديقا لما فيه،كما أن الآثار المنقولة عن ابن عبّاس رضي اللّٰه عنهما أقرب الأقوال من نظم القرآن." [2] پس جو شخص قرآنِ مجید کو سمجھنا چاہتا ہے،اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ روایات کے ذخیرہ میں سے ان روایات کو نہ لے جو اصل کو ڈھانے والی ہوں۔بعض روایتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کی تاویل نہ کی جائے تو ان کی زد براہ راست اصل پر پڑتی ہے اور ان سے سلسلۂ نظم درہم برہم ہوتا ہے۔لیکن تعجّب کی بات ہے کہ بہت سے لوگ آیت کی تاویل تو کر ڈالتے ہیں لیکن روایت کی تاویل کی جرات نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات تو صرف آیت کی تاویل ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ اس کے نظام کی بھی قطع وبرید کر ڈالتے ہیں،حالانکہ جب اصل ووفرع میں تعارض ہو تو کاٹنے کی چیز فرع ہے نہ کہ اصل ... اس طرح کی روایات کے بارے میں ہم کو نہایت محتاط ہونا چاہئے،صرف وہ روایتیں قبول کرنی چاہئیں جو قرآن کی تصدیق و تائید کریں،مثلاً جو آثار حضرت ابن عباس سے منقول ہیں وہ بالعموم نظم قرآن سے بہت اقرب ہیں۔
Flag Counter