ان کے نزدیک احادیث وروایات،قوموں کے ثابت شدہ اور متفق علیہ حالات اور گزشتہ انبیاء کے صحیفے ایک درجہ میں ہیں،جنہیں وہ ’فرع‘ کا نام دیتے ہیں۔[1]چنانچہ احادیث کیلئے لفظ روایات اور صحابہ وتابعین کے اقوال کیلئے لفظ احادیث کا استعمال بکثرت کرتے ہیں۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مولانا مرحوم نے مقدمۂ نظام القرآن میں حدیث پر جو کچھ لکھا ہے اس کا تعلّق محض روایاتِ تفسیر سے ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اس کتاب میں اسی حیثیت سے حدیث پر بحث کر سکتے تھے۔‘‘[2]
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے دیگر جمہور علماء کی طرح تفسیری روایات میں رطب ویابس اور ضعف و وضع کی نشاندہی تو کی ہے،لیکن اس کے بعد وہ تمام روایات پر ہی عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے ہیں،یا پھر اپنی درایتی اُصولوں کے مطابق جوصحیح ہو،اس سے استفادہ کر لیتے ہیں،باقی تمام روایات کو بیک جنبشِ قلم ردّ کر دیتے ہیں۔حالانکہ عام مفسرین نے بھی تفسیری روایات میں ضعیف وموضوع کی کثرت کی وضاحت کی ہے،لیکن اس کے باوجود وہ افراد وتفریط سے بچتے ہوئے،ضعیف روایات کو چھوڑ کر محدثین کے اُصولوں کے مطابق صحیح سند سے ثابت شدہ تفسیری روایات کو قبول کرتے ہیں۔
علمائے سلف کے ترجمان،امام ابن تیمیہ رحمہ الله تفسیری روایات میں رطب ویابس کی کثرت کی نشاندہی اس طرح کرتے ہیں:
"فإن الکتب المصنّفة في التّفسیر مشحونة بالغثّ والسّمین والباطل الواضح والحق المبین،والعلمُ إمّا نقلٌ مُصدَّق عن معصوم وإمّا قولٌ عليه دلیلٌ معلوم،وما سوى ذلك فإمّا مزیَّف مردودٌ وإمّا موقوف لا یُعلم أنه بهرج ولا منقود. وحاجةُ الأمّة ماسّةٌ إلى فهم القرآن. [3]
کہ تفسیر کی جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں رطب و یابس سب بھرا ہوا ہے،ان میں ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا حق ہونا بالکل واضح ہے اور ایسی باتیں بھی ہیں جن کے باطل ہونے میں شبہ نہیں کیا جاسکتا۔علم اصلاً یا تو وہ ہے جو نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح صحیح منقول ہو یاوہ بات ہے جس پر کوئی واضح دلیل ہو،اسکے علاوہ جو کچھ ہے،یا تو وہ کھوٹا او رناقابل قبول ہے یا اس قابل ہے کہ اس بارے میں توقّف کیا جائے کہ اس کے کھوٹے یا کھرے ہونے کا علم نہیں،امّت کیلئے قرآن پاک کا سمجھنا او راس کا فہم حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ احادیثِ مبارکہ اور اقوالِ صحابہ وتابعین میں ضعیف وموضوع روایات کی کثرت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وقد أسّس تفسيره بعض العلماء على الأحاديث كابن جرير الطّبري رحمه اللّٰه الّذي حكموا على تفسيره أنه لم يصنّف مثله،ولكن الأحاديث فيها أكثرها ضعاف والمرفوع فيه قليل،وإنما جمع فيه أقوال أهل التأويل مع كثرة الاختلاف فيما بينها." [4]
كہ بعض علماء نے اپنی کتابوں کی بنیاد روایات پر رکھی ہے مثلاً ابن جریر طبری رحمہ اللہ،ان کی تفسیر کے متعلّق عام خیال یہ ہے کہ
|