عطافرمایا ہے وہی اپنی حقیقی شکل میں موقف کا حوض او رجنت کی نہر ہے تو یہ تطبیق زیادہ بہتر ہوگی اور بہ اعتبار تاویل بھی یہ تاویل زیادہ مناسب اور خوب صورت ہے۔
اس کے بعد انہوں نے چند اشارات میں کوثر،جنت اور خانہ کعبہ میں مختلف اعتبارات سے مشابہت دکھاتے ہوئے لکھا ہے کہ کوثر خانہ کعبہ او راس کا ماحول ہے اور جنت کی نہر کوثر خانہ کعبہ اور اس کے ماحول کی روحانیت کی تصویر ہے۔فرماتے ہیں:
"من تأمّل في صفة النّهر الكوثر الّذي كشف للنّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم حين عرج به يجده مثالًا روحانيا للكعبة وما حولها." [1]
کہ معراج میں جو نہر کوثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاہدہ کرائی گئی تھی اس کی صفات پر جو شخص بھی غور کرے گا اس پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ نہر کوثر درحقیقت کعبہ اور اس کے ماحول کی روحانی مثال ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے خانہ کعبہ کو کوثر کی حقیقی صورت اور نہر کو اس کی روحانی مثال قرار دیا ہے۔یہ صحیح نہیں بلکہ نہر کوثر کو حقیقت قرار دینا چاہئے کیونکہ صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو کوثر کا مصداق قرار دیا ہے اور چونکہ خانہ کعبہ کو اس سے یک گونہ مشابہت ہے جس کا علم استنباط سے ہوا ہے اس لئے اسے دنیا میں نہر کوثر کا پرتو قرار دیناچاہئے۔
سطورِ بالا میں حدیث کے بارے میں مولانا کے وہ اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مولانا فہمِ قرآن میں مشروط طور پر احادیث سے استفادہ کے قائل ہیں۔وہ قرآن کو براہِ راست نظم اور سیاق سے سمجھتے ہیں،پھر جو مفہوم ان کی سمجھ میں آتا ہے،اس کے مطابق جو احادیث ملتی ہیں انہیں قبول کرلیتے اور جو اس کے مطابق نہیں ہوتیں انہیں ردّ کردیتے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک احادیث کی صحت وضعف کا معیار صرف ان کی سند نہیں ہے۔بلکہ اگر کوئی حدیث مولانا کے فہم کے مطابق قرآن اور اس کے نظم کے مخالف ہو تو وہ بھی قابل ردّ ہے،خواہ سند کے اعتبار سے وہ صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر ہی کیوں نہ قائم ہو۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مقامات پر مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بخاری ومسلم کی روایات کو اسی اُصول کے تحت ردّ کر دیا ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قد سبق منّي القول بأنّ القرآن هو الحاكم عند اختلاف بالأحاديث. فهٰهُنا نريد الإيضاح،وكنت أفرق من طعن بعض إخواننا،ولكن ذهب بهم الشّعف بالحديث إلى أن قالوا:إن الحديث داخل تحت آية﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾،ولم يتفكّروا نتائج هذا القول،فحان لي أن أرفع راية الصّدق ولا أبالي،ولو قطعوا رأسي لديه وأوصالي. فاعلم أن في قلوب أكثر أهل الحديث أن ما رواه البخاري ومسلم لا مجال فيه للشّك. فنورد بعض ما فيهما لكي تعلم أن اللّٰه تعالى شنع اتّخاذ العلماء أربابًا،فلا نؤمن بما فهموا من غير النّظر والفكر"[2]
کہ میں یہ بات پہلے کہہ چکا ہوں کہ جب احادیث کا قرآن سے ٹکراؤ ہوگا تو قرآن ہی حاکم ہوگا۔اس موقع پر میں اس کی کسی
|