Maktaba Wahhabi

434 - 535
کہ قرآنِ کریم کی کتنی ہی آیات ایسی ہیں کہ اگر تم ان پر غور کر کے ان کے معنی کو سمجھو گے تو تمہیں بہت سی احادیث اس معنی کے موافق مل جائیں گی۔حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کرتی،لیکن آیت کے کسی گہرے پہلو کو نمایاں کر دیتی ہے جو ممکن ہے غور نہ کرنے والے آدمی پر مخفی رہ جائے۔ بلکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم جو کچھ تخصیص فرمائی ہے،اسے عربی زبان اور کلام کی دلالت سمجھنے والا براہِ راست قرآن سے بھی سمجھ سکتا ہے۔فرماتے ہیں: "قال الإمام الشافعي:أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم خصّ ما كان عامًا في القرآن وذلك من البيان،فخصّ عليه السّلام عموم الحكم في السّرقة وحدّ الزنا وإعطاء الخمس لذوي القربى من الغنيمة،فقال:لولا دلالة السّنة لحكمنا بظاهر الكتاب،وجعلنا الحكم عامًا،وقال:يخصّ الكتاب بالسّنة والإجماع. أقول:قد أصاب الإمام فيما قال،ولكن قوله مُجمل،والتّفصيل أن دلالة اللّفظ ربّما يكون عامًا حسب الظّاهر ولكن المراد منه عند العارف باللّغة واستعمال الكلمات خاصّ،وذلك بيان الاستعمال ربّما يخّص العموم،مثلًا لا يُسمّى الرّجل عالمًا ولا جاهلًا ولا كاتبًا ولا شاعرًا إلا بعد أن يبلغ درجة خاصّة،ولذلك جاء الإجماع في تخصيص ما كان عامًا في الكتاب،فإن الصّحابة كانوا عالمين بمعنى الكلام العربي،والقرآن نزل بلسانهم،وكان الرّسول صلی اللّٰه علیہ وسلم أعلمهم بالكتاب،ثم أقول:إن للتّخصيص أصولًا فإن ربّ تخصيص يكون نسخًا. [1] کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ قرآن میں جو کچھ چیزیں عام تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تخصیص فرمائی،یہ بھی ’بیان‘ میں سے ہے۔مثال کے طور پر چوری،حد زنا اور مالِ غنیمت میں ذوی القربیٰ کے پانچویں حصے کے بارے میں جو احکام عام تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تخصیص فرمائی۔اگر سنت سے ان کی تخصیص معلوم نہ ہوتی تو ہم ظاہر کتاب سے فیصلہ کرتے اور حکم کو عام ہی رکھتے۔امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ سنت اور اجماع کے ذریعہ قرآن کے عام کو خاص کیا جا سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے جو کچھ فرمایا،وہ صحیح ہے،لیکن انکے قول میں اجمال ہے۔اسکی تفصیل یہ ہے کہ لفظ کی دلالت کبھی کبھی بہ ظاہر عام ہوتی ہے،لیکن زبان اور استعمال کلمات سے واقف شخص کے نزدیک اس سے مراد خاص ہوتی ہے،اس لئے کہ الفاظ کا استعمال عام کو خاص کر دیتا ہے۔مثال کے طور پر تم کسی شخص کو اس وقت تک عالم،جاہل،ادیب اور شاعر نہیں کہو گے جب تک کہ وہ ایک مخصوص درجہ تک نہ پہنچ جائے۔اسی لئے علماء کا اجماع ہے کہ قرآن کے عام کو خاص کیا جا سکتا ہے۔صحابہ عربی کلام کے معانی سمجھتے تھے،اس لئے کہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فہمِ قرآن میں ان سے فائق تھے۔لیکن ساتھ ہی میں یہی کہوں گا کہ تخصص کے کچھ اُصول ہوتے ہیں جنکی رعایت ضروری ہے،ورنہ تخصیص کی بعض صورتوں سے نسخ لازم آتا ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآنِ کریم کی نسبت سےاحکامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں،اور جن قسموں سےحدیث کے ذریعہ
Flag Counter