بعد روایات پرنظر ڈالی جائے اور کمزور روایات کو صحیح روایات سے چھانٹ کر الگ کیا جائے۔
گویا پہلے روایات سے بالکل الگ کرکے واقعہ کی اصل شکل اپنے ذہن میں واضح کی جائے اور پھر جو روایات آپ کے اخذ کردہ فہم کے موافق ہوں وہ صحیح ہوں گی،باقی ضعیف۔
ايك اور جگہ فرماتے ہیں:
"إذا کان الکلام محتملًا لتأویلات مختلفة فالمصیر إلى ما له نظیر في القرآن أحوط. فإنّ ما هو ليس في القرآن ربّما یکون رأیا محضًا وضلالةً. وأما ما کان له نظیر في الحدیث فلا بدّ من صحّته روايةً ودرايةً. ثم المصیر إلى النّظیر الذي في القرآن أوثق. [1]
کہ جب کلام میں مختلف تاویلات کا احتمال ہو تو محتاط اور قابلِ اعتماد طریقہ یہ ہے کہ متعلقہ قرآنی نظیر کی طرف رجوع کیا جائے۔اس لئے کہ جو چیز خارج اَز قرآن ہے وہ بسا اوقات رائے محض اور ضلالت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی اور اگر اس کی نظیر حدیث میں موجود ہے تو اسے ضرور دیکھنا چاہئے بشرطیکہ باعتبارِ روایت و درایت صحیح ہو۔پھر نظیر قرآن کی طرف رجوع کیا جائے۔یہ زیادہ قابلِ اعتماد طریقہ ہے۔
ایک اور مقام پر لکھا ہے:
"نعم ینظر في ما نقل من السّلف للتأييد عند الموافقة ورجع النّظر عند المخالفة حتی یطمئنّ القلب بما يفهم من الکلام فإنه أوثق وأبعد عن الخطأ ولذلك قال علماء التّفسیر أن أحسن التّفسیر ما کان بالقرآن."[2]
كہ بلاشبہ تائید کی غرض سے سلف سے منقول اقوال کو دیکھنا چاہئے جبکہ دونوں میں موافقت ہو،لیکن مخالفت کی صورت میں قرآن کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے یہاں تک کہ کلام(قرآن)سے اخذ کردہ مفہوم پرقلب مطمئن ہوجائے۔اس لئے کہ وہ قابل اعتماد ہے اور خطاء سے پاک بھی۔اسی لئے علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ سب سے اچھی تفسیر وہ ہے جو قرآن سے کی جائے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
"ولا شكّ أن أسلم الطّرق أن نضع زمام الاستنباط في يد القرآن،فنتوجّه حيث يقودنا نصه واقتضاؤه ونظمه وسياقه."[3]
کہ میرے نزدیک سب سے زیادہ بے خطر راہ یہ ہے کہ استنباط کی باگ قرآن مجید کے ہاتھ میں دے دی جائے،اس کانظم و سیاق جس طرح اشارہ کرے اسی طرف چلنا چاہئے۔
|