Maktaba Wahhabi

429 - 535
وتصدیق لایا جائے۔مولانا نے اس کا اظہار ایک سے زیادہ مقامات پر کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: "فعلمتُ من هذا أنّ أوّل شيء يفسّر القرآن هو القرآن نفسه،ثم بعد ذلك فهم النّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم والذين معه،ولعمري أحب التّفسير عندي ما جاء من النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وأصحابه رضوان اللّٰه عليهم أجمعين ... وإني۔مع اليقين بأن الصّحاح لا تخالف القرآن۔لا آتي بها إلا كالتّبع،بعد ما فسّرت الآيات بأمثالها،لكيلا يفتح باب المعارضة للمارقين الذين نبذوا كتاب اللّٰه وراء ظهورهم والملحدين الذين يلزموننا ما ليس له في القرآن أصل،ولكي يكون هذا الكتاب حجة بين فرق المسلمين وقبلة سواء بيننا. "[1] کہ اس سے مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ پہلی چیز جو قرآن کی تفسیر میں مرجع کا کام دے سکتی ہے وہ خود قرآن ہے۔اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کےاصحاب کا فہم ہے۔پس میں اللہ عزو جل کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پسند وہی تفسیر ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے منقول ہو ... میں یہ یقین رکھتاہوں کہ صحیح احادیث اور قرآن میں کوئی تعارض نہیں ہے۔تاہم میں روایات کو بطور اصل نہیں بلکہ بطور تائید کے پیش کرتا ہوں۔پہلے ایک آیت کی تاویل اس کے ہم معنی دوسری آیات سے کرتا ہوں۔اس کے بعد تبعاً اس سےمتعلق صحیح احادیث کا ذکر کرتا ہوں،تاکہ نہ تو ان منکرین ہی کو کسی اعتراض کا موقع ملے جہوں نے قرآن پس پشت ڈال رکھا ہے اور نہ وہ ملحدین ہی کوئی اعتراض اٹھا سکیں جو ہمارے سر ایسی چیزیں تھوپتے ہیں جن کی قرآن میں کوئی اصل نہیں ہے۔مقصود یہ ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان ایک حجت قاطع اور ایک مرکز جامع کی حیثیت سے کام دے سکے۔ واقعۂ فیل کے متعلّق فرماتے ہیں: "اعلم أن قصّة أصحاب الفيل لها إجمال وتفصيل. أما مجلمها فهو الّذي نصّ عليه القرآن. وأما تفصيلها فأخذوها من الرّوايات المختلفة المتفاوتة في الصّحة والضّعف. والمفسّرون يذكرون تفاصيل القصص من غير بحث عمّا ثبت وعمّا لم يثبت. وهذا ربّما يعظم ضرره،وربّما يصرف عن صحيح التأويل. فلا بدّ أوّلًا من الفرق بين المنصوص وبين المأخوذ من الرّوايات. ثم لا بُدّ ثانيًا من التمييز بين ما ثبت وبين ما لم يثبت. "[2] کہ اصحاب الفیل کا واقعہ اجمالاً اور تفصیلاً دونوں طریقہ سے بیان کیا گیا ہے۔اجمالاً تو خود قرآن مجیدنے بیان کردیاہے اور اس کی تفصیلی شکل وہ ہے جو مختلف قسم کی صحیح و ضعیف روایات سے اخذ کرکے تفسیروں میں پیش کی گئی ہے۔مفسرین عموماً قصہ کی تمام تفصیلات روایات سے اخذ کرکے بیان کرتے ہیں اور ضعیف و قوی روایات میں کوئی فرق نہیں کرتے۔یہ شکل مضر اور عموماً صحیح تاویل تک پہنچنے میں مانع ہوتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ واقعہ کی اصلی شکل روایات سے بالکل الگ کرکے دیکھی جائے۔اس کے
Flag Counter