لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ﴾[1]کہ سلامتی ہے الیاس پر،بے شک ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں ہم نیکو کاروں کو،بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔اور بے شک لوط رسولوں میں سے تھا۔پھر سورت کے اختتام پر فرمایا:﴿وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ()وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾[2]کہ اور سلامتی ہے رسولوں پر اور تمام شکر وتعریف ہے اللہ رب العٰلمین کے لئے۔[3]
اس حوالے سے جمہور مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں جن دو اشخاص کا تذکرہ ہے وہ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسحاق علیہما السلام ہیں۔ذیل میں ہم چند معروف تفاسیر سے اس مؤقف کی وضاحت کرتے ہیں:
1۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وقوله:﴿وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ﴾یقول اللّٰه تعالى:وبارکنا على إبراهيم وعلى إسحاق﴿وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ﴾یعنی بالمحسن المؤمن المطیع للّٰه المحسن في طاعته إياه،و﴿وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ﴾يعني بالظالم لنفسه:الکافر باللّٰه الجالب علی نفسه بکفره عذاب اللّٰه." [4]
کہ اللہ عزو جل کے اس قول﴿وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ﴾کامطلب یہ کہ ہم نے ابراہیم اور اسحاق علیہما السلام پربرکت ڈالی ہے اور﴿وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ﴾میں مُحسِن سے مراد مومن اور اللہ کا مطیع بندہ ہے،اور﴿وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ﴾میں ظالمٌ لنفسه سےمراد اللہ کا کفر کرنے والا ہے،جواپنے کفر کے سبب اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہا ہوتا ہے۔
2۔ امام بغوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"﴿وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ﴾يعني على إبراهيم في أولاده﴿وَعَلَى إِسْحَاقَ﴾بکون أکثر الأنبیاء من نسله" [5]
کہ ’ہم نے برکت ڈالی اس پر‘ یعنی ابراہیم پر ان کی اولاد میں اور ’اسحاق پر‘ یعنی ان کی نسل سے اکثر انبیاء لاکر۔
3۔ امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم قال تعالى:﴿وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ﴾وفي تفسیر هذه البركة وجهان:الأوّل:أنه تعالى أخرج جمیع أنبیاء بني إسرائیل من صلب إسحاق،والثاني:أنه أبقی الثنآء الحسن على إبراهيم وإسحاق إلى یوم القیامة،لأن البركة عبارة عن الدّوام والثّبات. [6]
|