Maktaba Wahhabi

410 - 535
صحت معنی کے کسی دوسری چیز کے ذریعے سے نہیں کیا جا سکتا۔‘‘[1] جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیتِ مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ عزو جل بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کو اس کے ارادے سے روک دیتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دُعا پڑھا کرتے تھے:((یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَىٰ دِينِكَ))[2] یہاں لفظ﴿يَحُولُ﴾جاننے کی بجائے،حائل اور رُکاوٹ کے معنی میں آيا ہے۔ چند معروف تفاسیر سے وضاحت درج ذیل ہے۔ 1۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "فقال بعضهم معناه:یحول بین الکافر والإیمان،وبین المؤمن والکفر." کہ بعض نے اس کا معنی بیان کیا ہے کہ اللہ عزو جل کافر اور ایمان کے درمیان اور مومن اور کفر کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ یہ معنی ابن عباس،سعید بن جبیر اور ضحاک رحمہما اللہ سے مروی ہے۔[3] مزید لکھتے ہیں: "وقال آخرون:بل معنى ذلك:یحول بین المرء وعقله فلا یدري ما یعمل." کہ دیگر نے اس کا معنی بیان کیا ہےکہ اللہ عزو جل بندےاوراس کی عقل کےدرمیان حائل ہوجاتا ہے،اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ یہ معنیٰ امام مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے۔[4] اقوال نقل کرنے کے بعد امام طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک صحیح ترین قول یہ ہے کہ اللہ عزو جل یہاں خبر دے رہا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں کا مالک ہے،وہ بندوں اور ان کےدلوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔یہاں تک کہ کوئی بھی اہل دل اس کی مشیت کے بغیر نہ تو کفر کرسکتا ہے اور نہ ہی ایمان لاسکتا ہے۔[5] 2۔ امام بغوی رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "قوله تعالى:﴿أَنَّ اللّٰهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِقال سعید بن جبیر و عطاء:یحول بین المؤمن
Flag Counter