محلی لکھنوی۔26 ذی القعدۃ 1264ھ؍1848ء کو ’باندہ‘ میں پیدا ہوئے۔[1]
ان دنوں آپ کے والد ماجد مولانا عبدالحلیم(1285ھ)نواب ذو الفقار الدولہ کے مدرسہ میں مدرّس تھے۔آپ کے والد نے اعل علم کے عام طریقہ کے مطابق آپ کی تعلیم کی ابتدا قرآن کریم سے کروائی۔آپ نےدس برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔سب سے پہلے جونپور کی جامع مسجد میں تراویح میں قرآن سنایا۔حفظِ قرآن،نظم ونثر فارسی اور مبادیاتِ حساب کی تعلیم آپ نے مولوی خادم حسین رحمہ اللہ سے لی۔اکثر علومِ مروّجہ اور فنونِ متداولہ اپنے والد ماجد سے پڑھے۔علومِ ریاضیہ کی تکمیل اپنے والد محترم کے ماموں مفتی نعمت اللہ بن نور اللہ لکھنوی رحمہ اللہ(1299ء)سے کی۔[2]
مولانا عبد الحی رحمہ اللہ کو اللہ عزو جل نے دو مرتبہ حجِ بیت اللہ کی سعادت سے نوازا،ایک مرتبہ والد صاحب کے ہمراہ 1279ھ میں اور دوسری مرتبہ ان کی وفات کے بعد 1293ھ میں۔وہاں انہوں نے مکہ مکرمہ میں سید احمد بن زین دحلان شافعی رحمہ اللہ اور مفتی محمد بن عبد اللہ بن حمید حنبلی رحمہ اللہ سے،جبکہ مدینہ نبویہ میں شیخ محمد بن محمد غربی شافعی رحمہ اللہ اور شیخ عبد الغنی بن ابو سعید عمری حنفی دہلوی رحمہ اللہ سے مختلف علوم میں اجازت حاصل کی۔[3]
سترہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو کر مسندِ درس پر براجمان ہوئے۔باندہ میں 9 سال قیام کرنے کے بعد ان کے والد ماجد جونپور میں حاجی امام بخش کے مدرسہ میں مدرّس مقرر ہوگئے اور وہاں دس برس تک تدریسی فرائض سر انجام دئیے،پھر حیدر آباد دکن کے سرکاری مدرسہ میں پڑھایا اور وہیں 1285ھ میں انتقال کیا۔
والد ماجد کے انتقال تک تو مولانا لکھنوی رحمہ اللہ حیدر آباد میں مقیم رہے۔ان کے انتقال کے بعد ارکان دولت اور عمائدین سلطنت نے مولانا عبد الحی کو اپنے والد کے قائم مقام کرنا چاہا،لیکن آپ نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے وطن واپس آکر مسندِ درس بچھا کر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مشغول ہوگئے اور تا زیست دادِ تحقیق دیتے رہے۔[4]
آپ نے بزرگوں کی کتابوں پر حاشیے لکھے۔فقہ،حدیث اور اُصول کی معرکۃ الآراء اور شہرۂ آفاق کتابیں تصنیف کیں۔علماء سے مناظرے کئے،خصوصا اہل حدیث عالم نواب صدیق الحسن خان قنوجی سے تو کئی ایک مناظرے ہوئے۔نواب صاحب بھی مولانا عبدالحی رحمہ اللہ کی طرح نہایت عالم وفاضل،مرقع صفات جمیلہ اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔اب مولانا کی شہرت تنگنائے ہند سے نکل کر چار دانگ عالم میں پھیل گئی۔سینکڑوں علمائے اعلام ان سے مستفیض ہوئے۔لاتعداد طلباء کرام ان کی درسگاہ سے کامل علماء ہو کر اٹھے اور بے شمار تشنگانِ علم ان کے چشمۂ شیریں سے سیراب ہو کر ملک ملک میں پھیل گئے۔آپ کی ہمہ گیر،علمی شخصیت نے مشرق ومغرب کے علمی ڈانڈے ملا دئیے تھے۔کثرتِ محنت کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہوگئی اور صرع کے دورے پڑنے لگے۔آخر کار اس موذی مرض سے جانبر نہ ہو سکے اور عین شباب کے عالم میں جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔آپ نے 29 ربیع الاول 1304ھ میں
|