"أنّ القرآن قطعي الدّلالة،واحتمالها(أي آياته)المعاني الكثيرة من قصور العلم والتدبّر. "[1]
کہ قرآنِ مجید بالکل قطعی الدلالۃ ہے۔ہر آیت میں مختلف معانی کا احتمال محض ہمارے قلتِ علم و تدبّر کانتیجہ ہے۔
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
"وما علمت دواء لهذا الدّاء العضال إلا التمسّك بالقرآن وردّ الروايات والآراء إلى كتاب اللّٰه. وهذا لا يكون إلا أن نؤمن بأنّ "القرآن لا يحتمل إلا تأويلا واحدا." وقد قدّمت القول في أن القرآن قطعيّ الدلالة وليس لعبارته إلا مدلول واحد. " [2]
کہ میرے خیال میں اس پیچیدہ اور جان لیوا مرض کا کوئی علاج نہیں،سوائے اس کے کہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑا جائے،اور روایات اور آراء کو کتاب اللہ کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔اور یہ ممکن نہیں جب تک کہ ہمارا یہ ایمان نہ ہو کہ کسی قرآنی آیت کی بس ایک ہی تاویل ہو سکتی ہے۔اور میں یہ پہلے واضح کر چکا ہوں کہ قرآن قطعی الدلالہ ہے اور اس کی عبارتوں کا بس ایک ہی مفہوم ہوا کرتا ہے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
"فما بالهم جعلوا القرآن غير قطعيّ،فقطعوا عنه الرّجاء وأكبوا على برهان لا يزداد شاربه إلا ظمأ؟ فبقينا في التّشاجر والاختلاف. فبعد ما خاب الأمل من هذا القطعي،حان لنا أن نرجع إلى ما أسأنا به الظّن أوّلًا،فنحسن به الظّن،فنؤمن بأنّ القرآن هو القطعي في دلالته والفاصل في حكمه. " [3]
کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے قرآن کو غیر قطعی سمجھ لیا۔اس طرح اس سے تو وہ مایوس ہوگئے اور ان عقلی ومنطقی دلائل کے چکر میں پڑگئے جن کے گھاٹ پر پانی پینے والا ہمیشہ پیاسا ہی رہتا ہے۔اس طرح ہم نزاع اور اختلاف کے ایسے منجدھار میں پھنس گئے جس سے ایک طویل زمانے سے ہمیں نکلنا نصیب نہ ہوا۔وقت آگیا ہے کہ ہم پھر سے ان چیز کی طرف پلٹیں جس سے ہم پہلے بد گمان ہو گئے تھے۔ضروری ہے کہ اب ہم اس سے اچھی اُمیدیں وابستہ کریں اور یہ ایمان رکھیں کہ قرآن اپنی دلالت میں بالکل قطعی ہے اور بالکل دوٹوک فیصلے دینے والا ہے۔
حروفِ مقطعات اور متشابه آیات کے بارے مولانا فرماتے ہیں:
"أما الآيات المتشابهات والحروف المقطعات فلا أجد شيئا أوضح منهما في الدلالة على معانيهما"[4]
کہ جہاں آیات متشابهات اور حروف مقطعات کا معاملہ ہے،تو میں کوئی شے ان سے بڑھ کر اپنی دلالت میں واضح نہیں پاتا۔
|