نہیں ہے یعنی اس کی آیتیں معنوی احتمالات رکھتی ہیں اس لئے انہوں نے گمان کیا کہ اگر محض رائے اور ظن سے قرآن کی تفسیر کی گئی تو اس سے بڑے مفسدات رونما ہوں گے۔ہر شخص اپنی رائے اور مسلک کے مطابق قرآن مجید کی تفسیر کرے گا اور اس طرح امت میں زبردست فکری اور عملی نزاع شروع ہو جائے گا۔اس بناء پر ان کے نزدیک محفوظ ومامون طریقہ تفسیر القرآن بالحدیث کے سوا کوئی دوسرا نہیں تھا۔مولانا رقمطراز ہیں:
"فمنهم من اطمأنّوا بالحديث بعد النّقد كأكثر أصحاب الرّوايات لما علموا أن كلام النّبي لا بدّ أن يوافق بالقرآن وهكذا كلام الصّحابة بكلام النّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ووجدوا في الأحاديث فسحة فجعلوها أصلا لقلّة الخطر فيها وفسّروا القرآن بها،حتى أن أصبح زمام القرآن بيد الحديث فقلّ اعتناءهم بفهم معاني القرآن. " [1]
کہ ان میں بعض وہ لوگ ہیں جو احادیث کو نقد ونظر کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ان پر مطمئن ہوگئے،جیسا کہ اکثر اصحابِ روایات کا مسلک ہے۔ان کا خیال تھا کہ کلامِ نبی لا محالہ قرآن کے اور کلام صحابہ کلام نبی کے موافق ہوگا۔اس کے علاوہ انہوں نے احادیث میں کافی وسعت پائی اس لئے انہوں نے اسی کو اصل قرار دے لیا کہ اس میں خطرات کم تھے اور اسی کے مطابق قرآن کی تفسیر کی،یہاں تک کہ قرآن کی زمام حدیث کے ہاتھ میں چلی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معانی قرآن کے فہم سے ان کی دلچسپی بہت کم ہوگئی۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"إنّ كلّ فرقة من المسلمين يتمسّك بالقرآن ويأول آياته إلى رأيه حتى اضطرّ المؤمنون إلى التمسّك بالسنّة ظنّا منهم بأنّ القرآن ذو وجوه،والسنّة بيّنة،والظّاهر أن القرآن هو المعتصم والمتمسّك لمعتمد ... واليأس من القرآن والتمسّك بالأحاديث وهن وفتح لأبواب الأكاذيب. " [2]
کہ مسلمانوں کا ہر فرقہ تمسک بالقرآن کے دعویٰ کے باوجود اس کی آیات کی تاویل اپنی رائے کے لحاظ سے کرتا ہے۔اس صورتحال نے مومنین کو تمسّک بالسنۃ کی طرف مائل کیا محض اس گمان پر کہ قرآن ایک سے زیادہ معنوی احتمالات رکھتا ہے اور سنت قطعی اور واضح ہے،حالانکہ فی الواقع قرآن ہی اعتصام،تمسک اور اعتماد کے قابل ہے۔... قرآن سے نا اُمیدی اور احادیث سے تمسّک کمزوری اور جھوٹ کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔
ايك اور جگہ فرماتے ہیں:
"وهذا شرّ فتنة وقعت فيها الأمّة،فتشبّث كل فرقة بآيات. وأوّلوا القرآن إلى آراء مختلفة حتى إلى الكفر والزندقة. فالمحيص عن هذه الورطة أن تجعل ما في القرآن مرتفعا مما ألحقوا به من الرّوايات والآيات وتجعله قطعيّا وما دونه ظنيّا،متحمّلا للاختلاف،﴿فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا﴾. " [3]
|