لیکن عام علمائے امّت کا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ قرآن و سنت شریعت کے دو بنیادی مآخذ ہیں۔دین کی اساس انہی دو چیزوں پر قائم ہے۔اگرچہ حکم الٰہی ہونے کے اعتبار سے دونوں بجائے خود ایک ہی شے ہیں لیکن کیفیت و حالت کے اعتبار سے یہ دو جدا شے ہیں،مگر اس کے باوجود ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ہے،دونوں چیزیں دین کے قیام کے لئے یکساں طور پر ضروری اور اہم ہیں،ان کے درمیان روح اور قالب جیسا تعلق ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾[1]
کہ یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اُتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں،شائد کہ وہ غور وفکر کریں۔
نیز فرمایا:
﴿إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ()فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ()ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾[2]
کہ یقیناً اس کا جمع کرنا اور(آپ کی زبان سے)پڑھنا ہماری ذمہ داری ہے۔جب ہم(فرشتے کے ذریعے)اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔
امام شاطبی رحمہ اللہ م790ھ فرماتے ہیں:
"فکأنّ السنّة بمنزلة التّفسیر والشّرح لمعاني أحکام الکتاب. " [3]
کہ گویا سنت کتاب اللہ کے احکام کے لئے بمنزلہ تفسیر و شرح کے ہے۔
عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ(1417ھ)فرماتے ہیں:
"السّنة والکتاب توأمان لا ینفکّان،ولا یتمّ التشریع إلا بهما جمیعا،والسّنة مبیّنة للکتاب وشارقة له،وموضّحة لمعانية ومفسّرة لمبهمه. "[4]
کہ کتاب و سنت ایسے جڑواں ہیں کہ الگ نہیں ہو سکتے۔شریعت ان دونوں ہی کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔سنت کتاب اللہ کی تبیین وتشریح کرنے والی،اس کی مرادوں کو کھولنے والی اور اسکے مبہمات(مجمل اور مشکل)کی تفسیر کرنے والی ہے۔
پس ضروری ہواکہ قرآن و حدیث دونوں کو دستور العمل اور حرز جان بنایا جائے،کیونکہ ان دونوں میں وہی نسبت ہے جو غذا اور پانی کی جسم سے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید ایک متن ہے جس میں بہت سے احکام اجمال و اختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں،حدیث ان کی شرح و تفصیل بیان کرتی ہے۔
افاداتِ فراہی کے ترجمان جناب خالد مسعود رحمہ اللہ اپنے ایک مضمون ’احکام رسول کا قرآن مجید سے استنباط‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
|