Maktaba Wahhabi

365 - 535
والعقائد والشّرائع. والقرآن قد تكفّل كل ذلك بأحسن ما يكون. "[1] کہ یہ بات محتاجِ بیان نہیں کہ دین کا زیادہ تر تعلّق نفوس کے تزکیہ،عقلوں کی تربیت اور اعمال کی اصلاح سے ہے،دوسرے لفظوں میں اسکا تعلّق اخلاق،عقائد اور شرائع سے ہے اور قرآن ان تمام اُمور میں بہتر سے بہتر رہنمائی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو نقطۂ نظر تمام علومِ دینیہ وشرعیہ کے سلسلے میں امام فراہی رحمہ اللہ کا تھا بعینہٖ وہی نقطۂ نظر احادیث وروایات کے سلسلے میں بھی تھا۔وہ جس طرح تمام علومِ دینیہ وشرعیہ کو قرآن کے تابع دیکھنا چاہتے تھے اسی طرح احادیث کو بھی اسی مرکز سے وابستہ اور اسی کا تابع دیکھنا چاہتے تھے۔چنانچہ فرماتے ہیں: "ثم خذ من الأحاديث ما يؤيّد القرآن لا ما يبدّد نظامه" [2] كہ احادیث میں سے وہی چیزیں قبول کرو جو قرآن کی تائید کریں نہ کہ وہ جو اس کے نظام کو درہم برہم کر دیں۔ گویا مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن وسنت کا باہمی تعلّق یہ ہے کہ قرآن کریم اصل ماخذِ شریعت ہے،قرآن ہی دین کی اصل واساس ہے،یہی قائد وامام ہے اور دوسرے تمام علوم بشمول احادیث اس کے تابع اور معاون ہیں،فرماتے ہیں: "من المأخذ ما هو أصل وإمام،ومنها ما هو كالفرع والتّبع. أما الإمام والأساس فليس إلا القرآن نفسه،وأمّا ما هو كالتّبع والفرع فذلك ثلاثة:ما تلقّته علماء الأمة من الأحاديث النبوية،وما ثبت واجتمعت الأمة عليه من أحوال الأمم،وما استحفظ من الكتب المنزلة على الأنبياء" [3] کہ بعض ماخذ اصل واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی۔اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے۔اس کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں:وہ احادیثِ نبویہ جن کو علمائے امت نے قبول کیا،قوموں کے ثابت شدہ ومتفق علیہ حالات اور گذشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں۔ اگر وہ قرآن کی تائید کریں توٹھیک،ورنہ مردود ہیں،فرماتے ہیں: "فالسبيل السّوي أن تعلّم الهدي من القرآن وتبني عليه دينك،ثم بعد ذلك تنظر في الأحاديث،فإن وجدت ما كان شاردا عن القرآن حسب بادئ النظر،أولته إلى كلام اللّٰه فإن تطابقا فقرت عيناك،وإن أعياك،فتوقّف في أمر الحديث واعمل بالقرآن"[4] کہ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آپ قرآن سے ہدایت حاصل کریں،اس پر اپنے دین کی بنیاد رکھیں۔اس کے بعد احادیث پر غور کریں۔اگر بادی النظر میں ان کو قرآن سے بیگانہ پائیں تو ان کی تاویل کتاب اللہ کی روشنی میں کریں،اگر مطابقت پیدا ہوجائے تو اس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی،اگر تطابق ممکن نہ ہو تو حدیث میں توقّف کرتے ہوئے قرآن پر عمل کرنا ضروری ہے۔
Flag Counter