Maktaba Wahhabi

360 - 535
بالقرآن،فما أجمل في مكان فإنه قد فسر في موضع آخر،فإن أعياك ذلك فعليك بالسّنة فإنّها شارحة للقرآن وموضّحة له. "[1] کہ اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ تفسیر کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تفسیر کا سب سے صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن ہی کے ساتھ کی جائے۔کیونکہ قرآن میں ایک مقام پر اگر اجمال ہے تو دوسرے مقام پر اس کی تفصیل مذکور ہے۔اگر قرآن کی تفسیر قرآن سے نہ ہو تو سنت کی طرف رجوع کرو،کیونکہ وہ قرآن کی شارح اور اس کی توضیح کرنیوالی ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ[2] کہ وه لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کو خلط ملط نہیں کیا،یہی لوگ ہیں جن کیلئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ میں ظلم کے مراد شرک ہے،جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وضاحت سورۂ لقمان کی حسبِ ذیل آیت مبارکہ سے کی۔[3] اللہ عزو جل کا فرمان ہے: ﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ[4] قرآن کریم کی تفسیر اگر حدیث مبارکہ میں ملے تو وہ گویا تفسیر قرآن بذریعہ قرآن ہی ہے۔معروف مناظر مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ(1948ء)نے اپنے رسالہ ’اجتہاد وتقلید‘ میں حدیث کو نصابِ تفسیر میں ذکر نہیں کیا تو مولانا ابراہیم میرسیالکوٹی رحمہ اللہ(1956ء)نے ان کی طرف سے عذر بیان کیا کہ حدیث کا ذکر نصابِ تفسیر میں سہواً رہ گیا ہوگا،اس کے جواب میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے ’تتمہ رسالہ اجتہاد وتقلید‘ میں فرمایا: ’’سہواً نہیں رہا،بلکہ اس لئے رہا کہ حدیث تو قرآن کی تَوأم ہے کسی حدیث میں کسی آیت کی تفسیر کا ہونا بمنزلہ تفسیر القرآن بالقرآن کے ہے۔میری غرض ان علوم کا بیان کرنا ہے جو علومِ آلیہ کہلاتے ہیں جن کی مدد سے قرآن مجید کا مطلب سمجھا جاتا ہے،حدیث کی مدد سے نہیں سمجھا جاتا بلکہ حدیث تعیین مصداق کر دے تو کوئی وجہ سرتابی کی نہیں۔‘‘[5] قرآنِ كريم میں ہے: ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ[6]
Flag Counter