Maktaba Wahhabi

359 - 535
خارجی،شیعہ،جہمیہ اور معتزلہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ قادیانی،نیچری اور پرویزی گروہوں کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کرتے ہوئے حدیث وسنت کو لازماً ملحوظ ومرعی رکھنا ہوگا۔بصورتِ دیگر تفسیر کی بجائے تحریف تک نوبت پہنچ سکتی ہے۔اصولی نکتے پر مشتمل مندرجہ بالا تمہیدی گفتگو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے تصور تفسیر القرآن بالقرآن کی کمزوری بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ نظ قرآنی اور ادبِ جاہلی کو تو اس میں شامل کرتے ہیں اور پھر اسے قطعی قرار دیتے ہیں جبکہ حدیث وسنّت اور صحابۂ کرام کی تفاسیر جن میں حکماً مرفوع اقوال بھی شامل ہیں،کو ظنّی قرار دے کر لائقِ اعتناء نہیں جانتے۔سوال یہ ہے کہ نظمِ قرآن اور ادبِ جاہلی سے ماخوذ مفہوم کو درجۂ قطعیت کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ اور حدیث وسنّت کے پایۂ قطعیت کو پہنچنے میں کون سی شے حائل ہے؟ زیر نظر فصل میں اسی نکتے کو بحث ونظر کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔اس باب میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کیا قرآنِ کریم کی تفسیر قرآن سے کرتے ہوئے سنّت کو نظر انداز کر دیا جائے گا؟ یا قرآن وسنت کو ملا کر قرآنی آیات کا مفہوم متعین کیا جائے گا؟ بادی النّظر میں تفسیر قرآن بذریعہ قرآن سے یہی مراد لیا جاتا ہے کہ جب قرآن کی تفسیر خود قرآن ہی سے مل جائے تو کسی اور شے بشمول سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ظاہر ہے کہ اس سے سنت کی اہمیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔مزید برآں قرآن وسنت کا باہمی تعلّق بھی نظر انداز ہو جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے افکار ونظریات کا تجزیہ وتحلیل پیش کیا جائے،یہاں یہ بتانا مناسب رہے گا کہ اربابِ تفسیر اس اَمر پر متفق ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن پاک کی دیگر آیات کی طرف دیکھا جائے گا۔مشہور قاعدہ ہے القرآن يفسّر بعضه بعضا کہ قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے،لہٰذا قرآن فہمی کیلئے یہ لازم ہے کہ اولاً خود قرآن سے ہی رہنمائی حاصل کی جائے۔علمائے تفسیر نے اس کو اولیٰ اور بنیادی حیثیت دی ہے۔چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(728ھ)طریقۂ تفسیر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: " أنّ أصحّ الطّرق في ذلك أن یفسّر القرآن بالقرآن،فما أجمل في مکان فإنه قد فسّر في موضع آخر وما اختصر من مکان فقد بسط في موضع آخر. فإن أعياك ذلك فعليك بالسّنة فإنّها شارحة للقرآن وموضّحة له. "[1] کہ اصح طریق یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے تلاش کی جائے کیونکہ قرآن میں ایک مقام پر اگر اجمال ہے تو دوسرے مقام پر اسکی تفصیل مذکور ہے،اسی طرح ایک مقام پر اختصار ہے تو دوسرے مقام پر اسی مفہوم کو قدرے طوالت سے ذکر فرمایا گیا ہے۔اگر قرآن کی تفسیر قرآن سے نہ ہو تو سنت کی طرف رجوع کرو،کیونکہ وہ قرآن کی شارح اور اسکی توضیح کرنے والی ہے۔ مشہور مفسر امام ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ(774ھ)مقدمہ تفسیر میں لکھتے ہیں: "فإن قال قائل:فما أحسن طرق التفسير؟ فالجواب:إن أصحّ الطرق في ذلك أن يفسّر القرآن
Flag Counter