Maktaba Wahhabi

351 - 535
فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ[1] کہ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی،حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔وہ اسلام کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے وہ نہ کر سکے۔یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے۔اب اگر یہ اپنی روش سے باز آئیں تو انہی کے لیے بہتر ہے۔او راگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو درد ناک سزا دے گا۔دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔ مولانا اس قرآنی نظیر کو پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس سے یہ امر بالکل واضح ہوگیا کہ تبلیغ کی یہ سختی محض اس لیے ہے کہ جن کے اندر قبولیت کی کچھ بھی صلاحیت ہے وہ اس جھنجھوڑنے سے بیدار ہو جائیں اور صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں جن کے لیے عذاب کا تازیانہ مقدر ہو چکا ہے۔ہم نے سورہ توبہ میں تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کی ہے یہ سختی محض توبہ کے غرض سے تھی تاکہ نیکی کا جوہر برائی کے کھوٹ سے صاف ہو کر نمایاں ہو جائے۔قدرت کا یہ منشا درشتی اور نرمی دونوں سے پورا ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے ان دونوں کی مثالیں بیان کی ہیں۔ ﴿أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا[2] کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئی۔ یہ نرمی کی مثال ہے اس کے بعد سختی کی مثال دی ہے: ﴿وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْأَمْثَالَ[3] کہ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔اس مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملہ کو واضح کرتا ہے جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ ٹھہر جاتی ہے اسی طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔ 4۔ جب ايك کلام مختلف تاویلات کا حامل ہو تو ان میں سے جس تاویل کی نظیر قرآن میں ملے گی وہ زیادہ قابلِ اعتماد ہوگی کیونکہ یہ ممکن ہے کہ جس تاویل کی نظیر قرآن میں نہیں وہ محض رائے اور سراسر گمراہی ہو۔جس تاویل کی نظیر حدیث میں ملتی ہے اس کو اختیار کرنے سے پہلے اس حدیث کو روایت ودرایت کے معیار پر پرکھنا ضروری ہے۔وہ تاویل جس کی نظیر قرآن میں موجود ہو،زیادہ قابل اعتماد ہوتی ہے۔[4]
Flag Counter