میں رہنمائی ملتی ہے:
1۔ پہلے مجمل اور مقدّر الفاظ اور جملوں کو ظاہر کیجئے لیکن مقدّرات کا علم نظمِ کلام اور حسنِ تاویل سے ہی ہوگا۔اس سے دو قرآنی متشابہ المعنیٰ آیات میں تطابق پیدا ہوگا اور مجمل و مقدّر کی تعیین میں رہنمائی بھی ہوگی کیونکہ ایک جگہ جو مفہوم مبہم ہوتا ہے،وہ دوسری جگہ واضح ہوتا ہے،اور یہ قرآن کریم کا عام اسلوب ہے۔[1] سیاقِ کلام خود ہی مجملات کو واضح کر دیتا ہے۔مثال کے طور پر سورۂ مؤمن کی ابتداء میں آیتِ کریمہ﴿مَايُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللّٰهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا﴾[2] میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ’کفر‘ سے کیامراد ہے؟ ’آیات اللہ‘ کا کیا مطلب ہے؟ اور ’جدال‘ سے مقصود کیا ہے؟ لیکن بعد کی آیات(14تک)[3]واضح کردیتی ہیں کہ ’کفر‘ سے مراد توحید کا انکار اور ’آیات اللہ‘ سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو احسانا ت و انعامات الٰہی کی جہت سےتوحید پر دلالت کرتی ہیں اور ’جدال بالباطل‘ سےمراد شرک کے ذریعہ مناظرہ اور حق کو دبانے کی کوشش ہے اور سورت کی بقیہ آیات اس کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔[4]
2۔ جب دو آیات میں تطابق کا پتہ چل جائے تو سیاق وسباق پر غور کیجئے کیوں کہ ضروری نہیں کہ دونوں آیات کا نظم اور سیاقِ کلام ایک ہو البتہ بعض دفعہ دو نظاموں میں کسی جہت سے مشابہت ہوتی ہے۔لیکن آیت کا موقع و محل اور آگے پیچھے کی آیات سے اس کا ربط ملحوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ آیت کا مفہوم اس کے صحیح تناظر میں متعین ہو سکے۔[5]
3۔ اگر کسی کلمہ یا جملہ میں دو تاویلوں کا احتمال ہواور قرآنی نظائر میں بھی مفہوم کا یہ احتمال موجود ہو تو کسی خاص تاویل کو اسی وقت
|