ہو ... میں یہ یقین رکھتاہوں کہ صحیح احادیث اور قرآن میں کوئی تعارض نہیں ہے۔تاہم میں روایات کو بطور اصل نہیں بلکہ بطور تائید کے پیش کرتا ہوں۔پہلے ایک آیت کی تاویل اس کے ہم معنی دوسری آیات سے کرتا ہوں۔اس کے بعد تبعاً اس سےمتعلق صحیح احادیث کا ذکر کرتا ہوں،تاکہ نہ تو ان منکرین ہی کو کسی اعتراض کا موقع ملے جہوں نے قرآن پس پشت ڈال رکھا ہے اور نہ وہ ملحدین ہی کوئی اعتراض اٹھا سکیں جو ہمارے سر ایسی چیزیں تھوپتے ہیں جن کی قرآن میں کوئی اصل نہیں ہے۔مقصود یہ ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان ایک حجت قاطع اور ایک مرکز جامع کی حیثیت سے کام دے سکے۔
مزید فرماتے ہیں:
"من المأخذ ما هو أصل وإمام،ومنها ما هو كالفرع والتبع. أما الإمام والأساس فليس إلا القرآن نفسه،وأمّا ما هو كالتّبع والفرع فذلك ثلاثة:ما تلقّته علماء الأمة من الأحاديث النبوية،وما ثبت واجتمعت الأمة عليه من أحوال الأمم،وما استحفظ من الكتب المنزلة على الأنبياء.
ولولا تطرّق الظن والشبهة إلى الأحاديث والتاريخ،والكتب المنزلة من قبل لما جعلناها كالفرع،بل كان كل ذلك أصلا ثابتا يعضد بعضه بعضا من غير مخالفة. " [1]
کہ بعض ماخذ اصل واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی۔اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے۔اس کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں:وہ احادیثِ نبویہ جن کو علمائے امت نے قبول کیا،قوموں کے ثابت شدہ ومتفق علیہ حالات اور گذشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں ... اگر ان تینوں میں ظن اور شبہ کو دخل نہ ہوتا تو ہم ان کو فرع کے درجہ میں نہ رکھتے بلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرار پاتی اور سب بلا اختلاف ایک دوسرے کی تائید کرتے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ(1930ء)کے تلمیذِ رشید اور ان کے منہج تفسیر پر قرآن کریم کی مکمل تفسیر کرنے والے مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ(1997ء)اس اصول کو اس انداز سے واضح کرتے ہیں کہ قرآنِ مجید کے فہم و تدبّر کے لئے اصل چیز خود قرآنِ مجید ہے۔اس لیے قرآن کے طالب کو چاہئے کہ وہ تمام مشکلات میں پہلے قرآنِ مجید کی رہنمائی ڈھونڈے۔سلف کا مذہب بالاتفاق یہ رہا ہے کہ القُرآنُ يُفَسّرُ بعضُه بعضًا کہ قرآن کاایک حصہ دوسرے حصہ کی خود تفسیر کرتا ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فہمِ قرآن کی کلید خود قرآن ہی ہے۔وہ اپنے تمام اجمالات کی خود تشریح کرتا ہے۔وہ اپنے مفہوم و معنی کی تعیین،اپنے مقاصد ومطالب کی تفسیراور اپنے نکات و حقائق کی تشریح کے لیے کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔بلکہ قرآنی بلاغت کا یہ ایک عجیب اعجاز ہے ... اور یقیناً اس آسمان کے نیچے صرف اس کتابِ عزیز کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے اکثر مشکل الفاظ اور دقیق اسالیب کے حل کے لیے بھی اپنے اندر مثالوں اور نظائر کا قیمتی خزانہ رکھتی ہے ... قرآن مجید عام بول چال کے اندر سے ایک معمولی لفظ اٹھا لیتا ہے اور اس کو اس کے معروف استعمال سے کہیں زیادہ بلند معنی میں استعمال کرتا ہے اور پھر اپنے طریق استعمال کےتنوع سے اس کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتا ہے کہ لسان العرب اور صحاح جوہری کی رہنمائی کے بغیر قرآن کا ایک طالب اس لفظ کے پورے مالہ وما علیہ کو اس طرح سمجھ لیتا ہے کہ کوئی چیز بھی اس کے یقین کو جھٹلا نہیں سکتی۔‘‘[2]
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’تدبر قرآن‘ کے مقدّمہ میں رقمطراز ہیں:
|