زَاغَتْ قُلُوبُکُمَا)سنی ہے،تب سے اس آیت مبارکہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔
ضحاک رحمہ اللہ(105ھ)فرماتے ہیں کہ﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾کا معنی ’زاغت قلوبکما‘ہے۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ(161ھ)فرماتے ہیں کہ﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾کامعنی ’زاغت قلوبکما‘ ہے۔[1]
2۔ امام بغوی رحمہ اللہ(510ھ)اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾أي زاغت ومالت عن الحق واستوجبتما التوبة
کہ تحقیق تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں اور حق سے ہٹ گئے ہیں اور تم دونوں پر توبہ واجب ہوگئی ہے۔
ابن زید(93ھ)فرماتے ہیں:
"مالت قلوبهما بأن سرّهما ما كره رسول اللّٰه من اجتناب جاريته"
کہ ان کے قلوب حق سے ہٹ گئے،کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی لونڈی سے اجتناب کرنےکو،اچھا جانا۔[2]
3۔ زمخشری رحمہ اللہ(538ھ)اس آیت مبارکہ کی تفسیر کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾فقد وجد منكما ما يوجب التّوبة وهو ميل قلوبكما عن الواجب،في مخالفة رسول اللّٰه من حب ما يحبّه وكراهة ما يكرهه،وقرأ ابن مسعود:فقد زاغت
کہ﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ﴾کا معنی ہے کہ تم سے ایسی غلطی سرزد ہوچکی ہے جس سے توبہ کرنا واجب ہے اور وہ غلطی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ان کی پسند کو اپنی پسند اور ناپسند کو اپنی ناپسند بنانے میں تمہارے دلوں کا واجب کی ادائیگی سے ہٹ جانا۔نیز سیدنا عبداللہ بن مسعود نے یہاں(فقد زاغت)پڑھا ہے۔[3]
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ﴾کی جو تفسیر(مالت إلى اللّٰه ورسوله)سے کی ہے وہ ان کی انفرادیت ہے۔دیگر مفسرین میں سے کسی نے بھی یہ مفہوم مراد نہیں لیا۔
4۔ امام ابن عطیہ رحمہ اللہ(542ھ)اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾معناه مالت أي عن المعدلة والصواب،والصغا:الميل ومنه صياغة الرّجل،ومنه أصغى إليه بسمعه،وأصغى الإناء وفى قراءة عبد اللّٰه بن مسعود(فقد زاغت قلوبكما)والزيغ الميل وعرفه في خلاف الحق،قال مجاهد:كما نرى صغت شيئا هنيا حتى سمعنا قراة ابن مسعود(زاغت)"
﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾کا معنی ہے عدل اور درستگی سے ہٹ جانا۔’صغا‘ کا معنی مائل ہونا ہے۔اس سے ’صياغة
|