یہ جاننے کیلئے کہ لفظ کا صحیح استعمال کیا ہے؟ اور نزو لِ قرآن کے وقت بالضّبط اس کا كيا مفہوم تھا؟ کلامِ عرب کی طرف رجوع نہایت ضروری ہے۔
2۔ اگر کسی لفظ کا صحیح معنی متعین نہ ہوسکے تو اس کی توضیح و تفسیر کاطریقہ یہ ہے کہ عربی زبان سے مشابہت رکھنے والی عبرانی و سریانی زبانوں میں اس لفظ کا استعمال معلوم کیا جائے اور اس کی روشنی میں اس کا صحیح مفہوم متعین کیاجائے،عربی زبان اور عبرانی زبان میں جو مماثلت پائی جاتی ہے اس کے سلسلہ میں مولانا لکھتے ہیں:
"فاعلم أن کلام المسیح المروي باللّغة اليونانية أصله عبراني. فلغة الإنجيل وكتب العهد العتيق واحدة،ولا شكّ أن العربي والعبراني۔وهما لغتا الكتب المنزّلة۔صنوان. إذا كان الأمر هكذا لا بدّ أن تشبّه بعضها بعضا،أو تهدي إحداهما إلى معنى الأخرى. " [1]
کہ یہ معلوم ہے کہ سیدنا مسیح کا کلام جس کی روایت یونانی زبان میں ہوئی،در اصل عبرانی زبان میں تھا،انجیل اور تورات کی زبان ایک ہی ہے۔اور یہ اَمر بھی ہر شخص کو معلوم ہے کہ عربی اور عبرانی۔جو آسمانی کتابوں کی زبانیں ہیں۔دونوں ایک ہی اصل سے نکلی ہیں۔ایسی صورت میں ناگزیر ہے کہ ان دونوں میں نہایت گہری مماثلت ومشابہت ہو اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے معانی کی طرف رہبری کرے
3۔ قرآنِ مجید عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔اس کی زبان فصاحت وبلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔اسی طرح اس کے معانی و مطالب میں بھی غایت درجہ بلندی پائی جاتی ہے۔جو کلام ان خصوصیات کا حامل ہو وہ فصیح،معروف اور واضح الفاظ کو چھوڑ کر شاذ،منکر اور غریب الفاظ کا استعمال کیونکر کر سکتا ہے؟ اس لیے تحقیقِ مفردات میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا ایک اُصول یہ ہے کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی لینے چاہئیں جو معروف اور ثابت ہوں۔شاد معنیٰ ہرگز نہ لیا جائے۔مولانا فرماتے ہیں:
"اللفظ إذا استعمل،لا بدّ أن يدل على مفهومه المعلوم الثّابت،فإن أريد به مفهوم يُنكره النّاس ويدّعيه مدّع ولا سبيل إلى إثباته،فهذا تعمية،والقرآن أنزله اللّٰه عربيًّا مبينًا،فلأيّ شيء يُترك الإفصاح. " [2]
كہ لفظ کا معروف و مستند اور قطعیٰ معنی مراد لیا جائے،کیونکہ اگر غیر معروف،شاذّ اور بے بنیاد معنیٰ مراد لیا گیا تو یہ کلام میں ابہام و تعقید پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔قرآن کریم تو شستہ و شگفتہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے،پھر آخر یہ شگفتگی اور فصاحت کس بنیاد پر نظر انداز کر دی جائے؟
فاتحہ نظام القرآن میں تفسیر کے لسانی ماخذ پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"وكذلك يجب أن نترك المعنى الشاذّ من اللّغة كما قيل في معني التمنّي أنه هو التلاوة. وما فزعوا إلى هذا المعنى الشاذّ الذي لم يثبت إلا فرارًا من بعض الإشكال،وهذا فتح لأبواب الفتنة واختلاف الأمّة.
|