امام بغوی رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر ماریں۔انہوں نے لاٹھی کوسمندر پر مارا۔سمندر نے بات نہ مانی۔اللہ نے پھر وحی کی کہ اس کی کنیت سے پکار کر لاٹھی مار۔حضرت موسی علیہ السلام نے پھر لاٹھی ماری او رکہا:اے ابو خالد اللہ کے حکم سے پھٹ جا۔سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہرٹکڑا ایک بڑے پہاڑ کی مانند تھا۔اس میں بارہ راستے بن گئے۔ہرقبیلے کے لئے ایک راستہ ’’وارتفع الماء بین کل طریقین کالجبل‘‘ اور ہر دو راستوں کے درمیان پانی پہاڑ کی مانند بلند ہوگیا۔اللہ عزو جل نے ہوا اور دھوپ بھیج کر سمندر کی تہہ کو خشک کردیا ’’وعن جانبيهم الماء کاالجبل الضخم‘‘ ان کی دونوں جانب پہاڑ کی مانند پانی تھا او روہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔چنانچہ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا او رہرقبیلے نےکہا کہ ہمارے بھائی تباہ ہوگئے تو اللہ عزو جل نے پانی کے ان پہاڑوں کی طرف وحی کی کہ کھڑکیاں بنا دی جائیں۔چنانچہ پانی کے ان پہاڑوں کے درمیان کھڑکیاں بنا دی گئیں۔وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور ایک دوسرے کی آوازیں سن رہے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے سمندر عبور کرلیا۔اللہ کے اس قول﴿وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ﴾سے یہی مراد ہے﴿فَأَنْجَيْنَاكُمْ﴾یعنی ہم نے تمہیں فرعون اور غرق دونوں سے نجات دی۔﴿وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ﴾جب فرعون سمندر کنارے پہنچا تو کہنے لگا۔دیکھو سمندر میری ہیبت سے پھٹ گیا ہے اور میرے بھگوڑے غلام اس میں ڈوب گئے ہیں۔اس نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ سمندر میں داخل ہوجاؤ۔لیکن انہوں نے سمندر میں داخل ہونے سے خوف کھایا۔کہا گیا ہے کہ انہوں نے کہا!اگر تو رب ہے تو موسی علیہ السلام کی طرح تو بھی سمندر میں داخل ہوجا۔فرعون سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھا اور فرعون کے لشکر میں ایک بھی مونث گھوڑی نہ تھی۔چنانچہ جبرئیل ایک مونث گھوڑی پر سوار ہوکر آئے جو مذکر گھوڑے کی خواہش مند تھی۔او ر ان کے آگے چلنا شروع کردیا۔جب فرعون کے گھوڑے نے اس گھوڑی کی خوشبو سونگھی تووہ بھی اس کے پیچھے سمندر میں کود پڑا۔وہ جبرئیل علیہ السلام کونہیں دیکھ سکتے تھے۔چنانچہ فرعون کا کسی شی پر اختیارنہ رہا۔فرعون کے پیچھے پورا لشکر سمندر میں امڈ پڑا اور میکائیکل علیہ السلام قوم کے پیچھے ہوگئے جو انہیں جلدی جلدی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملنےکی ترغیب دے رہے تھے۔جب وہ سارے سمندر میں گھس گئے اور جبرئیل علیہ السلام سمندر سے نکل گئے تو اللہ عزو جل نے سمندر کو حکم دیا کہ وہ ان تمام کو پکڑ لے۔چنانچہ سمندر ان پر رواں ہو گیا اور وہ سب کے سب غرق ہوگئے اور سمندر کے دونوں کناروں کے درمیان چار فرسخ کا فاصلہ تھا او ریہ بحرقلزم ہے۔[1]
امام رازی رحمہ اللہ واقعہ غرق فرعون کے بارے میں لکھتے ہیں:
مروی ہے کہ جب اللہ عزو جل نے فرعون اور قبطیوں کو غرق کرنے کا ارادہ کرلیا تو موسی کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو حکم دو کہ وہ قبطیوں سے ان کے زیورات عاریۃً لے لیں۔اس کے دو مقاصد تھے:
الف۔تاکہ وہ اپنا مال حاصل کرنے کے لئے بنی اسرائیل کا پیچھا کریں۔
ب۔تاکہ مال بنی اسرائیل کے ہاتھ آجائے۔پھر رات کے وقت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا اپنی قوم کو
|