سردار کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اندھے،غلام اور گھٹیا لوگ ہیں۔چنانچہ آپ نے تیوری چڑھا کر ان سے منہ موڑ لیا او ران سرداروں کے ساتھ گفتکو کرنے لگے۔جس پر اللہ عزو جل نے یہ آیات مبارکہ نازل فرما دیں۔ان آیات کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے انتہائی عزت و احترام سے ملتے او رجب بھی ان کو دیکھتے تو کہتے(مرحبا بمن عاتبنی فيه ربی)کہ خوش آمدید ایسے شخص کو،جس کی وجہ سے میرے رب نے مجھے عتاب کیا۔اللہ کے نبی ہمیشہ ان سے پوچھتے رہتے۔’’هل من حاجة‘‘ کہ کیا کوئی حاجت تو نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوغزوات کے موقع پر ان کومدینہ پر اپنا نائب مقرر کیا۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے انہیں جنگ قادسیہ کے دن دیکھا انہوں نے سیاہ جھنڈا اٹھایا ہوا تھا اور زرہ پہنی ہوئی تھی۔[1]
امام رازی رحمہ اللہ سورہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ آئے۔اُم مکتوم آپ کی دادی کا نام ہے اور آپ کا پورا نام عبداللہ بن شریح بن مالک بن ربیعہ الفہری من بنی عامر بن لؤی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کے سرداران عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ،ابوجہل بن ہشام،عباس بن عبدالمطلب،امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ موجود تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ شاید وہ مسلمان ہوجائیں۔ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بار بار کہنے لگے(أقرئنی و علمنی مماعلمك اللّٰه)کہ آپ مجھے پڑھائیں او رجو کچھ اللہ نے تجھے سکھلایا ہے اس میں سے مجھے بھی سکھلائیں۔پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قطع کلامی کرنے کو ناپسند کیا اور تیوری چڑھاتے ہوئے ان سے منہ موڑ لیا۔اس پر اللہ عزو جل نے یہ آیات مبارکہ نازل فرما دیں۔اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تکریم کرتے اور جب بھی ان کو دیکھتے تو کہتے،(مرحبا بمن عاتبنی فيه ربی)کہ خوش آمدید،ایسے شخص کو،جس کی وجہ سے میرے رب نے مجھ پرعتاب نازل کیا۔اور ان سے پوچھتے رہتے تھے۔(هل من حاجة)کہ کیاکوئی حاجت ہے۔،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ان کومدینہ پرنگران مقرر کیا۔[2]
امام زمخشری رحمہ اللہ اس سورہ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ آئے۔اُم مکتوم ان کی دادی کانام ہے۔اور ان کا نام عبداللہ بن شریح بن مالک ابن ربیعہ الفہری من بنی عامر بن لؤی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سردار قریش عتبہ،شیبہ ابنا ربیعہ،ابوجہل بن ہشام،عباس بن عبدالمطلب،امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ موجود تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے شاید کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور ان کی وجہ سے دیگر لوگ مسلمان ہوجائیں۔سیدنا ابن اُم مکتوم نے بار بار یہ کہنا شروع کردیا۔(أقرئنی وعلمنی مما علمك اللّٰه)کہ آپ مجھے پڑھائیں او رجو کچھ آپ کو اللہ عزو جل نے سکھلایا ہے اس میں سے مجھے بھی سکھلائیں۔ان کونہیں معلوم تھا کہ آپ قوم کے ساتھ مشغول ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے قطع کلامی کرنے کو ناپسند کیا اور تیوری چڑھاتے ہوئے اس سے منہ پھیر لیا۔جس پر اللہ عزو جل نے یہ آیات مبارکہ نازل فرما دیں۔
|