''وذکر أن الأعمی الذی ذكر اللّٰه في هذه الآية،هو ابن أم مكتوم،عوتب النبى صلى اللّٰه عليه وآله وسلم بسبه"
کہ جس نابینا صحابی کاتذکرہ اس آیت مبارکہ میں کیا گیا ہے وہ ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ ہیں جن کے سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعتاب کیا گیا۔
اس کے بعد امام طبری رحمہ اللہ نے اس سورۃ کاشان نزول بیان کرتے ہوئے متعدد روایات نقل کی ہیں۔
سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سورۃ عبس سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے ’أرشدنی‘ کہ آپ میری راہنمائی فرمائیں۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشرک سرداربیٹھے ہوئے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ سے اعراض کرتے ہوئے ان سرداروں کے ساتھ گفتگو کو ترجیح دی۔جس پر اللہ عزو جل نے یہ سورۃ نازل کردی۔[1]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عتبہ بن ربیعہ،ابوجہل اور عباس بن عبدالمطلب سے گفتگو فرما رہے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔اسی دوران سیدنا ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ آئے او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھنے کی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگے۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’علمنی مما علمک اللّٰه‘ کہ جو کچھ تجھے اللہ نے سکھلایا ہے،اس میں سے مجھے بھی سکھلایئے۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیوری چڑھاتے ہوئے ان سے منہ پھیر لیا اور اس کی کلام کوناپسند کیا اور دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ گفتگو مکمل کرلی اور گھر کو جانے لگے تو اللہ عزو جل نے یہ سورۃ نازل فرما دی۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کی عزت و احترام کرتے او ران سےکہتے رہتے(ما حاجتك هل ترید من شی)کہ کیا آپ کو کوئی کام ہے،کیا آپ کچھ چاہتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو دو غزوات کے موقع پر مدینہ میں اپنا خلیفہ مقرر کیا۔
مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سیکھنے اور پڑھنے آئے تھے،اور اس سورۃ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے اس رویے کی وجہ سے عتاب ہے جو انہوں نے اس نابینا صحابی کے ساتھ اختیار کیاتھا۔
امام بغوی رحمہ اللہ اس سورۃ کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:
اس سورہ مبارکہ میں نابینا سے مراد سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ ہیں۔جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفارمکہ کے سرداروں عتبہ بن ربیعہ،ابوجہل بن ہشام،عباس بن عبدالمطلب،ابی بن خلف اور اس کے بھائی اُمیہ بن خلف سے گفتگو کررہے تھے۔انہیں اللہ کی طرف بلا رہے تھے اور اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !(أقرئنی و علمنی مما علملك اللّٰه)کہ مجھے پڑھائیں اور جو کچھ تجھے اللہ نے سکھلایا ہے،مجھے بھی سکھلائیں۔وہ بار بار یہ کلمات کہہ رہے تھے اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کی طرف متوجہ ہیں۔ان کے اس رویے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر کچھ ناپسندیدگی ظاہر ہونے لگی۔آپ نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ
|