Maktaba Wahhabi

248 - 535
مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت ابولہب کو اسلام کی دعوت دی،مگر اس نے انکار کردیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا نوح علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رات کو دوبارہ ابولہب کے گھر گئے جب آپ اس کے گھر میں داخل ہوئے تو اس نے کہا:کیا آپ معذرت کرنے آئے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محتاج کی مانند اس کے سامنےبیٹھ گئے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کہا:اگر دن کو تجھے عار نے اسلام لانے سے روکا تھا تو اب اس وقت میری دعوت کو قبول کرلے اور خاموش رہ۔ابولہب نےکہا:میں اس وقت تک تجھ پر ایمان نہ لاؤں گا جب تک یہ جدی تجھ پر ایمان نہ لے آئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جدی سے پوچھا:میں کون ہوں؟ اس نےکہا:اللہ کے رسول!نیز اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرنا شروع کردی۔جس پر ابولہب پر حسد غالب آگیا،اس نے جدی کا ہاتھ پکڑا اور اسے زور سے مروڑا اور:"تبّا لك أثر فیك السّحر" تو جدی نے بھی آگے سے کہا:"بل تبّا لك" چنانچہ اسی کے موافق یہ سورۃ نازل ہوئی۔[1] تفسیر رازی میں اگرچہ قصّہ مختلف ہے مگر اس میں بھی ابولہب کی مذمت او راس کے خلاف بددعا کا ہی تذکرہ ہے۔ امام ابن عطیہ رحمہ اللہ اس سورۃ کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں: حدیث مبارکہ میں مروی ہے کہ جب سورۃ شعراء کی یہ آیت مبارکہ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ[2] نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((یَا صَفِيَّةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،يَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ!لَا أَمْلِكُ لَكُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا،سَلَانِي مِن مَالِي مَا شِئْتُمَا))کہ ا ےصفیہ بنت عبدالمطلب،اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں اللہ عزو جل سے تمہارے بارےمیں کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔تم دونوں مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہتی ہو مانگ لو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور خواص قریش کو پکارا:((یَا بَنِی فُلَان،یَا بَنِی فُلَان))کہ اے بنو فلاں،اے بنو فلاں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بلند آواز سے یا صباحاہ کہا،ہرطرف سے لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے۔آپ نے ان سے کہا:((أَرَأَیْتُمْ لَوْ قُلْتُ لَکُمْ إِنِّي أُنْذِرُكُمْ خَيْلًا بِسَفْحِ هٰذَا الْجَبَلِ أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟))کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر میں کہو کہ اس پہاڑ کے دامن میں موجود لشکر سے ڈر جاؤ،تو کیا تم میری تصدیق کرنے والے ہو۔انہوں نے کہا:ہاں!تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تمہیں آخرت کے شدید عذاب سے ڈراتا ہوں۔یہ سن کر ابولہب بولا:"تبّالك سائر الیوم ألهذا جمعتنا" جب لوگ آ پ کے پاس سے متفرق ہوگئے تو اللہ عزو جل نے یہ سورۃ نازل فرما دی۔[3] مذکورہ بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔اس میں ابولہب کی سخت کلامی کاجواب ہے او راس کے خلاف بد دُعا ہے،مفسرین میں سے کسی نے بھی اس سورہ کو فتح مکہ کی بشارت قرار نہیں دیا۔اس سورۃ کو فتح مکہ کی بشارت قرار دینا صرف مولانا فراہی رحمہ اللہ کی انفرادیت ہے۔اس رائے میں ان کا کوئی بھی ہم نوا نہیں ہے۔
Flag Counter