Maktaba Wahhabi

247 - 535
مام بغوی رحمہ اللہ(510ھ)اس سورت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور یا صباحاہ(عرب یہ کلمہ خطرہ کے وقت پکارتے تھے تاکہ سب لوگ متنبہ ہوجائیں)کہا۔چنانچہ قریش والے آپ کے پاس جمع ہوگئے۔انہوں نے آپ سے پوچھا:کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا:((أَرَأَیْتَکُمْ إِنْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُصْبِحُکُمْ أَوْ مُمسِیکُمْ أَمَا کُنْتُمْ تُصَدِّقُونَنِی))کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا ماننے والے ہو۔انہوں نے کہا:کیوں نہیں!تب آپ نے فرمایا:میں تمہیں آخرت کے شدید عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔یہ سن کر ابولہب بولا:"تبّا لك ألهذا جمعتنا." چنانچہ اللہ عزو جل نے اس کے جواب میں یہ سورت﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾نازل فرما دی۔" امام فراء رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "الأول دعاء،والثاني خبر،کما یقال:أهلك اللّٰه وقد فعل." کہ آیت مبارکہ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾كا پہلا حصہ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾بددعا ہے اور دوسرا حصہ﴿وَتَبَّ﴾خبر ہے،جیسے کہا جاتا ہے کہ اسے اللہ عزو جل نے اسے ہلاک کردیا اور وہ ہلاک ہوگیا۔[1] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بغوی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ سورۃ ابولہب کے خلاف بددعا اور اس کی سخت کلامی کا جواب ہے۔ جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ اس سورت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں: التباب‘ کا معنی ہلاکت ہے،یعنی وہ ہلاک ہوگیا۔[2] جب سورۃ شعراء کی آیت مبارکہ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ[3] نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر(یا صباحاہ)کی آواز لگائی۔جب ہرطرف سے لوگ آ پ کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا: ((یَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،یَا بَنِي فِهْر!إنْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ بِسَفْحِ هٰذَا الْجَبَلِ خَیْلًا أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ؟)) کہ اے بنو عبدالمطلب،اےبنو فہر،اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں ایک لشکر(چھپا ہوا)ہے تو کیا تم میری تصدیق کرنے والے ہو،انہوں نے کہا:ہاں:تب آپ نے فرمایا:میں تمہیں قیامت سے ڈرانے والا ہوں۔یہ سن کر ابولہب بولا:"تبّا لك ألهذا دعوتنا" چنانچہ ابولہب کے جواب میں یہ سورت نازل ہوگئی۔[4] امام رازی رحمہ اللہ اس سورہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
Flag Counter