Maktaba Wahhabi

225 - 535
ویرجع في ذلك إلى لغة القرآن والسّنة أو عموم لغة العرب"[1] کہ جب کوئی یہ پوچھے کہ تفسیر کا صحیح طریقہ کیا ہے،اگر قرآن و حدیث دونوں سے نہ ملے،تو اقوال صحابہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا،اگر قرآن،حدیث اور اقوال صحابہ سب میں نہ مل پائے،تو اکثر ائمہ کرام کے نزدیک اقوال تابعین رحمہم اللہ کی طرف رجوع کیا جائے گا،اگر تابعین کا اختلاف ہو،تو ان کی بات دوسرے تابعین یا بعد والوں پر حجت نہ ہوگی،بلکہ اس بارے میں لغت قرآن و حدیث یا تمام عربوں کی لغت کو دیکھا جائے گا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک مستقل تصنیف ہی اصول تفسیر پر کی ہے،لیکن اس میں کہیں نظم قرآن کو جگہ نہیں دی۔ 4۔ امام زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "للناظر في القرآن لطلب التفسیر مآخذ كثيرة،أمهاتها أربعة:الأول:النقل عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم . الثانى:الأخذ بقول الصحابي. الثالث:الأ خذ بمطلق اللغة. الرّابع:التفسیر بالمتتضی من معنی الکلام والمقتضب من قوة الشرع"[2] کہ تفسیر کی جستجو کی غرض سے قرآن میں غور کرنے والے شخص کے لئے بکثرت ماخذ پائے جاتے ہیں،ان میں سے چار ماخذ اصل صول ہیں:1۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کا پایا جانا 2۔صحابی سے قول اخذ کرنا 3۔مطلق لغت کو ماخذ بنانا 4۔وہ تفسیر جو کہ کلام کے معنیٰ کے مقتضی سے اور قوت شرع سے اخذ کی گئی رائے سے کی جائے۔ اس قول کی وضاحت دوسرے باب میں ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں یہاں مقصود بیان یہ ہے کہ نظم قرآن کو تفسیر کے اصولوں میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ 5۔ امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قال العلماء:من أراد تفسیر الکتاب العزیز،طلبه أولا من القرآن ... فإن أعیاه ذلك طلبه من السنة ... فإن لم يجده في السّنة رجع إلى أقوال الصحابة ... فإن لم یجد عن أحد من الصحابة رجع إلى أقوال التابعین. [3] کہ علماء کا کہنا ہے کہ جو قرآن عزیز کی تفسیر کرنا چاہتا ہو،تو پہلے قرآن سے تلاش کرے،اگر یہ ممکن نہ ہو،تو سنت سے،اگر سنت سے بھی نہ ملے،تو اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع کرے اور اگر اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی نہ ملے تو تابعین کرام رحمہم اللہ کے اقوال کو لے۔ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خود سیوطی رحمہ اللہ نظم قرآن کے فوائد کے قائل ہیں،لیکن انہوں نے اسے صرف زائد علوم اور نکات وفوائد میں شمار کیا ہے،اُصول تفسیر میں جگہ نہیں دی۔
Flag Counter