(۵)۔اسرائیلی روایات(کچھ شروط کے ساتھ)6۔لغت عربی(کچھ شروط کے ساتھ)
نظم قرآن کو اس میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔معتبر تفاسیر میں انہی اصولوں کو ملحوظ ومرعی رکھا گیا ہے،جیسا کہ سطور ذیل سے معلوم ہو گا۔
1۔ تفسیر بالماثور میں سب سے مشہور تفسیر طبری کی ہے۔امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اسلوب کو دیکھنے سے بات عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ قرآن کی تفسیر قرآن سے پھر حدیث سے،پھر اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے،پھر اقوال تابعین رحمہم اللہ سے اور پھر لغت وغیرہ سے کرتے تھے،ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾کی تفسیر میں آپ نے سب سے پہلے تفسیر کے سلسلے میں سید نا عبداللہ بن مسعود کی قراء ت پیش کی ہے،فرماتے ہیں:
"ويذكر أن ذلك في قراء عبد اللّٰه وقد تب وفي دخول قد فيه ولالة على أنه خبر"[1]
كہ بیان کیا جاتا ہے کہ سید نا ابن مسعود کی قراء ت میں وقد تب تھا،اس سے معلوم ہوا کہ یہ جملہ خبر یہ ہے۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ قراء ت کے ذریعے کوئی معنی متعین کرنا تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔
اس کے بعد چونکہ بر موقع کوئی مرفوع روایت نہ تھی لہٰذا اقوال تابعین رحمہم اللہ پیش کیے ہیں،اس کے بعد سبب نزول بیان کر کے اس پر روشنی ڈالی ہے،لیکن نظم قرآن کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔
2۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا تو مشہور اسلوب ہے کہ وہ تفسیر کرتے وقت زیرتفسیر آیت سے ملتی جلتی بہت سی آیات پیش کرکے تفسیر کرتے ہیں۔دوسرا نمبر اصول تفسیر میں ان کے ہاں بھی حدیث نبوی کا ہے،مثلاً مذکورہ مثال ہی کے تحت ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو کہ آیات لکھ کر اس کے بعد آپ نے با سند صحیح بخاری کی حدیث نقل کی ہے۔پھر اقوال صحابہ و تابعین کا ذکر کیا ہے۔اس کے برعکس نظم قرآن سے کوئی استدلال نہیں کیا۔یہی انداز دوسری بہت سے مفسرین نے اپنایا ہے۔
اصول تفسیر پر لکھی گئی کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے کہ تفسیر قرآن کے اسالیب میں نظم قرآن کا تذکرہ موجود نہیں ہے،جیسا کہ ذیل کی سطروں سے واضح ہو گا۔
3۔ اُصول تفسیر پر پہلی مستقل تصنیف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب مقدمة في أصول التفسیرہے۔اس میں آپ تفسیر کا صحیح طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"فإن قال قائل فما أحسن طرق التفسیر؟ فالجواب أن أصح الطرق في ذلك أن تفسر القرآن بالقرآن. فإن أعیاك ذلك فعلیك بالسنة ... وإذا لم نجد التفسير في القرآن ولا في السنة رجعنا في ذلك إلى أقوال الصّحابة ... إذا لم تجد التفسیر في القرآن ولا في السنة ولا وجدته عن الصحابة فقد رجع کثیر من الأئمة في ذلك إلى أقوال التابعین ... فإن اختلفوا فلا یکو ن قول بعضهم على بعض ولا على من بعدهم
|