فخر الدين رازی رحمہ اللہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ قرآن حکیم کے اکثر لطائف ان ترتيبات اور روابط میں ودیعت ہیں۔
اس موضوع پر دوسری اہم تصنیف آٹھویں صدی ہجری کے ابوجعفر بن زبیر غرناطی رحمہ اللہ(708ھ)کی ہے جس کا نام البرهان في مناسبة ترتیب سور القرآن [1]ہے۔مگر اسی فن میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے اہم کتاب نویں صدی کے امام برہان الدین بن عمر البقاعی رحمہ اللہ(885ھ)کی ہے جس کا نام نظم الدّرر في تناسب الآي والسور ہے۔مصنّف نے اس کتاب کی تصنیف پر 14 سال صرف کئے تھے۔ڈاکٹر مصطفی صادق الرّافعی کے مطابق اس موضوع پر اس سے بہتر کتاب تصنیف نہیں کی گئی،اسے وہ اسرارِ قرآن کا محیرالعقول خزانہ قرار دیتے ہیں۔[2]
اسی صدی میں برصغیر میں علاؤ الدین مہائمی رحمہ اللہ کا نام ملتا ہے جنہوں نے مناسباتِ آیات ہی کے موضوع کو پیش نظر رکھ کر مکمل تفسیر قرآن مرتب فرمائی اور اس کا نام تبصیر الرّحمن وتیسیر المنان رکھا۔علامہ مہائمی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں یہ التزام بھی فرمایا کہ ہر سورت سے پہلے آیت بسم اللہ کی تفسیر میں اس سورت کے مرکزی مضمون کو اجمالاً بیان کردیا ہے اپنی اس خصوصیت کے لحاظ سے یہ تفسیر بے مثل ہے جیسا کہ مہائمی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں ربطِ کلمات،نظم اور ترتیب آیات کے متعلق ایسے نکات اور لطائف جمع کردیئے ہیں جو ان سے پہلے کسی کی دسترس میں نہ آسکے تھے۔اللہ عزو جل نے ان پر خاص احسان فرمایا اور انہیں یہ توفیق بخشی کہ نظم قرآن کے مخفی گوشوں کو ظاہر کریں اور ان کے جمال اور اعجاز کو آشکار کریں۔[3]
دسویں صدی ہجری میں جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ(911ھ)نے اس علم کی طرف خاص توجہ دی اور اس علم نے جو وسعت ان کے عہد تک اختیار کی تھی اسے سمیٹنے کی اہم خدمت انجام دی اس موضوع پر پہلے انہوں نے أسرار التّنزیل لکھی پھر مناسبات سور پر علیحدہ ایک کتاب تناسق الدرر في تناسب السور تحریر کی۔الإتقان في علوم القرآن میں بھی ایک مستقل باب اسی موضوع سے متعلق ہے جس میں مناسبات اور ارتباط آیات کے وجوہ او راسباب کے متعلق اہم اور مفید ذخیرہ جمع کردیا ہے۔
اس صدی کے دو اور مفسّرین خاص شہرت رکھتے ہیں ایک مصر کے شمس الدین محمد بن الشربینی رحمہ اللہ(977ھ)جن کی تفسیر السراج المنیر ہے اور دوسرے ابوالسعود حنفی رحمہ اللہ(982ھ)ہیں۔ان دونوں بزرگوں نے اپنی تفاسیر میں ارتباط آیات پر خاص توجہ دی ہے۔
ان مفسرین کرام کے بعد ہماری نظر،برصغیر پاک و ہند کے عظیم محقّق امام الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ پر رُکتی ہے جنہوں نے مناسبات اور نظم قرآن پراصولی بحث اپنی نادر تصنیف الفوز الکبیر في أصول التفسیر میں پیش کی ہے اور مناسبات کے سلسلہ میں آپ رحمہ اللہ کا مؤقف ابن العربی رحمہ اللہ اور فخر الدین رازی رحمہ اللہ سے مختلف ہے۔چنانچہ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
|