Maktaba Wahhabi

150 - 535
یہ تو اجماع عام کی تعریف ہے اگر اجماع شرعی کی تعریف کرنی ہو تو امر کے ساتھ شرعی ہونے کی قید لگا دیں گے۔جیسا کہ ’مسلم الثبوت‘ میں ہے:اتفاق المجتهدین من هذه الأمة في عصر على أمر شرعي‘‘[1]یعنی اس امت کے مجتہدوں کا کسی زمانہ میں کسی امر شرعی پر اتفاق۔جیسے اس امر پر اتفاق،کہ ظہر وغیرہ کی چار رکعت ہیں اور مغرب،فجر میں قصر فی السفر نہیں اور طلاق مرد کے ہاتھ میں ہے نہ کہ عورت کے وغیرہ۔ اسی طرح اگر اجماع لغوی کی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہیں گے:اس امت کے مجتہدوں کا اتفاق کسی زمانہ میں کسی لفظ کے معنی پر یا قاعدہ صرفی نحوی وغیرہ پر۔جیسے قتل کے معنی مار ڈالنا،اسی طرح اگر اجماع عرفی کی تعریف کرنا چاہیں تو امر عرفی کی قید لگا دیں گے۔امر عرفی کی مثال،جیسے سب قوموں میں عام رواج ہے کہ عورت کا اول نکاح خوشی اور دھوم دھام سے ہوتا ہے،نکاح ثانی اس طرح نہیں ہوتا اور ہندوؤں میں عام رواج ہے کہ عورت خاوند کا نام نہیں لیتی اگر لے تو برا مناتے ہیں۔اسی طرح اجماع عقلی کی تعریف میں امر عقلی کی قید لگا دیں گے جیسے الکلّ أعظم من الجزء یعنی کل جز سے بڑا ہے اور جیسے الحمدُ لِلّٰہ اور﴿إِنَّ اللّٰهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[2] وغیرہ۔غرض جیسا اجماع ہو گا ویسی ہی قید امر کے ساتھ لگا دیں گے پس یہ اجماع خاص کی تعریف ہو جائے گی۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جب کسی بات پراجماع ہو گا تو اس کے لئے کوئی ذریعہ اور باعث ضرور ہو گا اس ذریعہ اور باعث کو اصولیوں کی اصطلاح میں ’مستند‘ اور ’داعی‘ کہتے ہیں۔یہ داعی اجماع کی جنس سے ہو گا،یعنی جس قسم کا اجماع ہو گا اسی قسم کا داعی ہو گا اگر اجماع عقلی ہے تو اس کے لئے داعی عقل ہو گی جیسے عقل کہتی ہے ’کل جز سے بڑا ہے ‘ ا س لئے سب کا اس پر اتفاق ہو گیا۔اگر اجماع لغوی ہو تو اس کا داعی لغت اور محاورہ ہو گا جیسے اہل زبان قتل کے معنی مار ڈالنا سمجھتے ہیں اور فاعل کو مرفوع پڑھتے ہیں،اس لئے ائمہ عربیہ کا اجماع ہو گیا کہ قتل کے معنی ’’مار ڈالنا ‘‘ہے اور ہر فاعل مرفوع ہے۔اگر اجماع شرعی ہو تو اس کا داعی شرعی ہو گا یعنی کوئی آیت اور حدیث ہو گی جیسے فرض نمازوں کی رکعتوں کی تعداد اور قصر کا،کسی نماز میں ہونا اور کسی میں نہ ہونا،یہ امور آیات و احادیث سے ثابت ہیں اور ان ہی آیات و احادیث کی وجہ سے ان امور پر اجماع ہو گیا۔ اگر اجماع عرفی ہو تو اس کا داعی عرف ہو گی یعنی اہل عرف کا ایک بات کو آپس میں اچھا،برا سمجھنا جیسے عورت کے نکاح اول میں زیادہ خوشی کو اچھا سمجھنا اسی طرح عورت کا خاوند کو نام لے کر بلانا(بوجہ بے ادبی وغیرہ کے)بُرا سمجھنا۔غرض جیسا اجماع ہو گا ویسا داعی ہو گا اگر کوئی شخص ’اجماعِ عرفی‘ یا عقلی لغوی کیلئے ’شرعی داعی‘ یا شرعی کیلئے عقلی یا عرفی یا لغوی داعی طلب کرے تو یہ درست نہ ہو گا۔ صحابہ کے اجماع کے حق میں حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب ہم اتفاق کے ساتھ مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک کام کرتے چلے آتے ہیں یا اس کے قائل ہیں تو فوراً خیال جاتا ہے کہ ضرور اس کی کچھ اصل ہے۔کیونکہ سب مسلمانوں کو لکیر کے فقیر نہیں کہہ سکتے خاص کر خیر قرون کو،پس تواتر کی طرح اس کی
Flag Counter