Maktaba Wahhabi

133 - 535
"فکأنّ السّنة بمنزلة التّفسیر والشّرح لمعاني أحکام الکتاب"[1] کہ گویا سنت کتاب اللہ کے احکام كيلئے بمنزلہ تفسیر و شرح کے ہے۔ شیخ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ(1332ھ)نے قواعد التحدیث میں جمہور محدثین کی اتباع میں ایک عنوان یوں قائم کیا ہے:ما روي أن الحدیث من الوحي. [2] ابوالبقاء رحمہ اللہ(616ھ)فرماتے ہیں: ’’حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ عزو جل کی جانب سے نازل کردہ وحی کی حیثیت سے قرآن و حدیث ایک ہی اور باہم وابستہ ہیں جس کی دلیل یہ آیت ہے:﴿إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾ان دونوں چیزوں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ اس حیثیت سے ہے کہ حدیث کے برخلاف قرآن اعجاز و تحدی کے ساتھ نازل ہوا ہے،اس کے الفاظ لوحِ محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں،جن میں تصرّف کا حق اصلاً نہ جبریل کو حاصل ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو،لیکن احادیث اس بات کی متحمل تھیں کہ جبریل پر ان کے صرف معانی نازل ہوں،جنہیں یا تو وہ عبارت کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کر دیں یا بذریعہ الہام آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیں،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فصیح عبارت میں اس کو بیان فرما دیں۔‘‘[3] مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ رسالت کی اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’قرآن عزیز نے اس موضوع کو مختلف عنوانات اور مختلف طُرق سے بیان فرمایا ہے۔قرآن کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں یہ مسئلہ ایمان کیلئے ایک اساس اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔پیغمبر کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو قرآن اور اسلام دونوں مسکین اور یتیم ہو کر رہ جائیں گے۔‘‘[4] مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ(1958ء)فرماتے ہیں: ’’علم و بصیرت کا اصلی سرچشمہ صرف حیاتِ نبوت اور منہاج مقام رسالت ہے جس کو قرآن حکیم نے ’الحکمت‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے:﴿وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا﴾کیونکہ دنیا میں ’حکمتِ صادقہ‘ کا اس ’حکمت‘ سے الگ کوئی وجود ہی نہیں۔’حکمت‘ یا تو خود منہاج و سنت نبوت ہے یا علم و عمل کی ہر وہ بات جو اس سے ماخوذ اور صرف اسی پر مبنی ہو۔‘‘[5] مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی رحمہ اللہ ’مقدّمہ فی اُصول التفسیر‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ’’تفسیر میں گمراہی کا اصل سبب اس بنیادی حقیقت کو بھول جانا ہے کہ قرآن کے مطالب وہی ہیں جو اس کے مخاطب اوّل نے سمجھے اور سمجھائے ہیں۔قرآن،محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور قرآن بس وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور سمجھایا ہے۔اس کے سوا جو
Flag Counter