القرآن"[1]
کہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنت لے کر اسی طرح نازل ہوتے تھے جس طرح کہ قرآن لے کر نازل ہوا کرتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنت بھی اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح کہ قرآن سکھاتے تھے۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ(157ھ)فرماتے ہیں:
"إذا بلغك عن رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیث فإیّاك أن تقول بغیره فإنه کان مبلغا عن اللّٰہ"[2]
کہ اگر تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پہنچے تو اس کے خلاف یا ا س کے علاوہ کچھ کہنے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ وہ حدیث دراصل اللہ عزو جل کی جانب سے ہے۔امام شاطبی رحمہ اللہ نے امام اوزاعی رحمہ اللہ(157ھ)سے نقل کیا ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی اور جبریل آپ کے پاس وہ سنت لے کرآتے تھے جو اس وحی کی تفسیر کر دیتی تھی۔‘‘[3]
شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
’’دینی اُصول کے سلسلہ میں وہ شخص کیسے کچھ کہہ سکتا ہے جس نے دین کو کتاب و سنت کی بجائے لوگوں کے اقوال سے سیکھا ہو؟ اگر یہ شخص یہ گمان کرے کہ وہ دین کتاب اللہ سے لے رہا ہے اور وہ اس کی تفسیر،حدیث رسول اللہ سے نہیں لیتا اور نہ اس پر غور کرتا ہے اور نہ بسندِ صحیح ہم تک پہنچنے والے صحابہ وتابعین کے اقوال پر نظر رکھتا ہے(تو اسے جان لینا چاہئے کہ)ان راویوں نے ہم تک صرف قرآن کے الفاظ ہی کو نہیں پہنچایا بلکہ اس کے معانی و مطالب کو بھی پہنچایا ہے۔وہ لوگ قرآن کو بچوں کی طرح نہیں سیکھتے تھے بلکہ اسکے مفہوم کو بھی سمجھتے تھے۔اگر کوئی شخص ان کا راستہ اختیار نہ کرے تو پھر اپنی رائے سے ہی بولے گا،اور جو اپنی رائے سے بولے اور اپنے گمان کو ہی دین سمجھے اور دین کو قرآن و سنت سے نہ سیکھے وہ گنہگار ہے،خواہ اس کی بات درست ہی ہو۔اور جو دین کو کتاب اللہ اور سنت رسول سے سیکھے،اگر وہ غلطی بھی کرے تو ماجور ہو گا اور اگر صواب کو پالے تو دوہرا اجر پائے گا۔‘‘[4]
امام مروزی رحمہ اللہ(294ھ)فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی اجازت اور وحی کے ذریعہ ہی شرائع کو مشروع اور سنن کو مسنون بنایا ہے نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش نفس کے مطابق،چنانچہ اللہ عزو جل نے خود اس بات کی شہادت یوں دی ہے:﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى()مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى()وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى()إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾کہ ستارے کی قسم جب وہ گرے تمہارے رفیق(محمد)نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے،اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں۔یہ توحکم خدا ہے جو(ان کی طرف)بھیجا جاتا ہے۔‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ(790ھ)فرماتے ہیں:
|