Maktaba Wahhabi

98 - 111
یادِ رفتگاں مو لا نامحمد رمضان یوسف سلفی بابائے تبلیغ مولانامحمد عبداللہ گورداسپوری رحمۃ اللہ علیہ بابائے تبلیغ حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری رحمۃاللہ علیہ برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم دین تھے۔ اُنہوں نے دعوت و تبلیغ کے میدان میں اپنی واعظانہ صلاحیتوں، بلند آہنگ خطابت اور حکیمانہ اسلوب تبلیغ سے لوگوں کو توحید و سنت کا عامل بنایا اور انہیں’صراط مستقیم‘ دکھا کر نیک نام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا محمدعبداللہ صاحب کو علم و عمل کا حظ ِوافر عطا کیا اور بے پناہ اوصاف و کمالات سے نوازا تھا۔ آپ اہل اسلام بالخصوص جماعت اہلحدیث کے لیے عظیم سرمایہ تھے۔ گذشتہ صدی کی جماعتی تاریخ انہیں نہ صرف یہ کہ اَزبر تھی بلکہ بہت سے واقعات کے آپ عینی شاہد بھی تھے۔ جب زبان کو حرکت دیتے تو اکابر کے واقعات بیان کرتے چلے جاتے۔ شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ اَمرتسری رحمۃاللہ علیہ کے تربیت یافتہ اور ان سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔اسی پر بس نہیں بلکہ ان سے متعلق نادر معلومات اور واقعات بھی فراہم کرتے۔ بلاشبہ ہمارے یہ بزرگ معلومات کا بحرذخار اور ہماری جماعتی تاریخ کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ بڑے ہی شگفتہ مزاج، لطیف گو، مرنجا مرنج اور باغ و بہار طبیعت کے انسان تھے۔ عبوست و یبوست سے کوسوں دور رہتے، ان کی بذلہ سنجی اور خوش طبعی کے قصے زبان زد عام ہیں۔ آپ نہایت بااخلاق، بلند کردار، نیک طینت، شریف النفس ، خوش گفتار، مہمان نواز اور منکسر مزاج عالم دین تھے۔ وہ میرے بہت ہی پیارے اور محترم بزرگ دوست تھے۔ ان سے عقیدت و محبت کا ناطہ ربع صدی تک قائم رہا۔ میں نے پہلی بار انہیں 1988ء کے ماہ ستمبر کے وسط میں دیکھا تھا۔ وہ مولانا بشیر احمد صدیقی رحمۃاللہ علیہ کی تعزیت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس میں تشریف لائے تھے۔ یہ تعزیتی جلسہ سمن آباد فیصل آباد کے بلال پارک (کوئلے والی گراونڈ) کے مشرقی کونے پر مولانا بشیر صدیقی کے گھر کے قریب منعقد ہوا تھا۔ میں سٹیج کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ مولانا عبداللہ صاحب مائیک پر آئے۔ میانہ قد، متناسب جسم، سفید داڑھی، نظر کے چشمے کے پیچھے ذہانت کی غماز چمکتی آنکھیں، سر پر کلّے کے اوپر سفید طرے دار پگڑی، سفید شلوار اور قمیص، اوپر سے واسکٹ زیب تن ،پاؤں میں کھسّہ۔ انہوں نے اپنی کڑک دار آواز میں السلام علیکم کہا ۔ کچھ دیر
Flag Counter