تاریخ وسیر ابوحمزہ پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی بَـقـيــع؛ مدینہ منوّرہ کا قبرستان بقیع (بروَزن امیر) ایسے کھلے میدان کو کہتے ہیں جس میں مختلف قسم کے خودرُو گھاس، پودے اور درخت ہوں۔ مدینہ منورہ کے قرب و جوار میں بہت سی جگہیں بقیع کہلاتی تھیں۔ مثلاً ’بقیع الغرقد‘ جہاں عوسج کا ایک بہت بڑا درخت تھا، اسے غرقد کہا جاتا او راسی نسبت سے اس جگہ کو ’بقیع الغرقد‘ کہتے تھے۔ اس کے علاوہ بقیع الزبیر، بقیع الخیل او ر بقیع الخبخبة بھی معروف مقامات تھے۔[1] بقیع الغرقد: عہدِ رسالت میں مدینہ منورہ کی شہری آبادی از حد محدود اور مختصر تھی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم او رحجرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرقی جانب کچھ مکانات تھے او ر اُن سے ذرا ہٹ کر ایک میدان تھا جسے بقیع الغرقد کہا جاتا تھا۔ عنوان النجابة في معرفة من مات بالمدینة من الصحابة کے صفحہ 135 پراسی کو بقیع الخبخبة بھی لکھا گیا ہے۔مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد توسیعات کے بعد اب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرقی صحن بقیع تک پھیل چکا ہے۔ نقیع الحضمات: یہ بھی مدینہ منورہ کے نواح میں ایک جگہ کا نام ہے۔ اس کا بھی احادیثِ مبارکہ میں تکرار کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ بعض اہل علم کو سہو ہوا اور وہ اسے بھی بقیع (با کے ساتھ) لکھتے اور پڑھتے ہیں جبکہ یہ لفظ با کے ساتھ نہیں بلکہ نون کے ساتھ ہے۔ [2] مدینہ منورہ میں قبرستان کے لیے جگہ کا تعین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جسے مسلمانوں کے قبرستان کے لیے متعین کیا جاسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بقیع الغرقد میں تشریف |