Maktaba Wahhabi

92 - 111
تاریخ وسیر مولانا محمد یوسف انور ختم نبوت کی تحریکوں میں علماے اہل حدیث کا کردار عقیدۂ ختم نبوت ہر مسلمان پرواجب ہے ۔ اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعیت اسی عقیدے سے وابستہ ہے۔ اگر کوئی شخص ختم نبوت کی نفی کرتا ہے یا اس میں کمی بیشی کا مرتکب ہوتا ہے تو گویا وہ اسلام کی خوبصورت عمارت میں نقب زنی کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : ﴿وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ1﴾ [1] محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اللہ کے رسول ہیں بلکہ تمام انبیا علیہم السلام کو ختم کرنے والے ہیں۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أنا خاتم النّبيـین لا نبي بعدي)) [2] ’’میں انبیا کو ختم کرنے والا ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کے تحت تمام اُمّت کا ختم نبوت کےعقیدہ پر اجماع و اتحاد ہے جس سے اِنحراف یا اختلاف متفقہ طور پر دائرۂ اسلام سے اِخراج ہے۔ پوری اُمّت کا اس اَمر پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا تو وہ جھوٹا اورکذّاب ہے۔ اُمت اس پر بھی متفق ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جنہیں زندہ آسمان پر اٹھایا گیا ہے، ان کا نزول دوبارہ ہوگا مگر نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ خاتم الانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی کی حیثیت سے نزول ہوگا۔ سرزمین ہند میں قادیان کےمرزاغلام احمدنے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو علماے اُمت نے اس فتنہ کےسدّباب کےلیےبھرپور کردار اَدا کیا اور اس عظیم جدوجہد میں علماے اہل حدیث کی خدمات سرفہرست اور امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ آغاشورش کاشمیری مرحوم نے اپنی زندگی کی آخری تصنیف ’تحریکِ ختم نبوت‘ میں لکھا ہے کہ مرزا قادیانی کی سب سے پہلے سرکوبی
Flag Counter