واقف ہیں۔ آلِ سعود سے پہلے جب حجاز پر اہل بدعت کی حکومت اور اقتدار تھا تو اُنہوں نے ان تمام قبور پر قبے کھڑےکردیئے اور عمارات قائم کردی تھیں او رہرقبر کے سرہانے ان کے نام لکھ دیئے تھے۔ چونکہ شریعتِ مطہرہ میں قبروں پرعمارات بنانا سخت منع ہے۔ اس لیے موحدین آلِ سعود نے حکومت سنبھالنے کےبعد ان خلافِ شرع تمام مظاہر کا خاتمہ کردیا ۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کی حفاظت فرمائے اور دشمنوں کے شر اور حسد سےمحفوظ رکھے۔ آمین! یوم انہدامِ بقیع بقیع میں قبروں کے اوپر کی عمارات کے انہدام کا واقعہ ما ہ شوال میں پیش آیاتھا۔ اسلئےبرصغیر کے قبرپرست حضرات ماہِ شوال میں یومِ انہدامِ بقیع مناکر اس توحیدی اقدام پر احتجاج کیا کرتے ہیں۔ مگر اس طرح کے خلافِ شرع اقدامات سے شمع توحید کوبجھایا نہیں جاسکتا۔ابتدا میں جب آلِ سعود نے یہ توحیدی اقدام اُٹھایا تھا تب بھی ان لوگوں نے شور شرابا کیا تھا تو اس وقت کے حامل توحید سعودی فرماں روا نے علیٰ الاعلان کہاتھا کہ اگر آپ لوگ ان قبّوں کے جواز پر ایک بھی شرعی دلیل پیش کردیں تو میں یہ تمام قبے اور مزارات سونےکے بنوا دوں گا۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس ان قبوں اور مزارات کے جواز میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، اس لیے آج تک وہ اس سلسلے میں لاجواب ہیں۔ ’جنّت البقیع‘ کی اصطلاح کتبِ حدیث اور مدینہ منورہ کی تاریخ پر لکھی گئی تمام مستند ومعتبر کتابوں میں اس قبرستان کو بقیع ، البقیع یابقیع الغرقد ہی لکھا گیا ہے۔ مگر برصغیرکے اہل علم او ریہاں پر تاریخ مدینہ منورہ یا حج وغیرہ کی کتابوں میں اس قبرستان کا ذکر کرتے ہوئے اسے ’جنت البقیع‘ لکھتے ہیں جبکہ اس کے لیے کوئی واضح نص یا شرعی دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا اہل علم پر لازم ہےکہ نہ صرف وہ خود اس اصطلاح سے اجتناب کریں بلکہ اپنے اپنے حلقہ احباب میں بھی اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ واللہ تعالیٰ ہو الموفق |