Maktaba Wahhabi

90 - 111
3. عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت بپا ہونے کے بعد جب مُردوں کو زندہ کیا جائے گا تو سب سے پہلے میں اپنی قبر سے باہر آؤں گا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ او ران کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ، بعد ازاں میں بقیع والوں کی طرف جاؤں گا۔ وہ میرے پاس جمع ہوجائیں گے۔ اس کے بعد میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا اور میں حرمین کے درمیان سے اُٹھایا جاؤں گا۔ ‘‘[1] 4. اُمّ قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: ’’کیا تم اس قبرستان (بقیع) کو دیکھ رہی ہو؟ قیامت کے دن اس میں سے ستّر ہزار افراد ایسے اُٹھیں گے جن کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی مانند روشن ہوں گے اور وہ سب بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘[2] 5. امیرالمؤمنین سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کی موت، مدینہ منورہ میں عطا کرے، آپ یوں دعا کیا کرتے تھے: اللهم ارزقنی شهادة في سبیلك واجعل موتي في بلد رسولك ’’یا اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرمانا او رمجھے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےشہر (مدینہ منورہ) میں موت آئے۔‘‘[3] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا۔ آپ کو شہادت کی موت، مدینہ طیبہ میں آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں مدفن ملا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ آمین! مدفون حضرات اس قبرستان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ، اولاد اور دیگر اقربا کے علاوہ دس ہزار کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد لاتعداد تابعین، تبع تابعین، ائمہ دین، مفسرین، محدثین، اہل علم خواص و عوام مدفون ہیں۔ ان کی صحیح تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان میں سے معروف معروف شخصیات کی قبریں اور اُن کی جگہیں معروف ہیں اور اہل مدینہ اُن سے
Flag Counter