Maktaba Wahhabi

89 - 111
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی تدفین : خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی قبر اس وقت بقیع میں ہی ہے۔ شاید بعض حضرات کے لیے یہ بات نئی ہو کہ جب امیر المؤمنین کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا تو مدینہ منورہ کے حالات اس قدر پُرخطر تھےکہ امیر المؤمنین کو بقیع میں دفن کرنا ممکن نہ تھا۔ بقیع کے مشرق میں’حُشِ کوکب‘ نامی ایک باغ تھا۔ کسی زمانے میں اس باغ کا مالک ’کوکب‘ تھا۔اسی کی نسبت سے یہ باغ ’حُشِّ کوکب‘ کہلاتا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ باغ خرید لیا تھا اور شہادت کے دنوں میں یہ آپ ہی کی ملکیت میں تھا۔ چنانچہ آپ کی تدفین آپ کے اسی باغ میں کی گئی۔ بعد میں امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں بقیع کی توسیع کرتے ہوئے اس باغ کو بقیع میں شامل کردیا گیا ۔ بقیع قبرستان اور اس میں مدفون حضرات کی فضیلت 1. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر بقیع میں جاکر وہاں کے مدفون حضرات کے حق میں دعائے مغفرت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بھی میرے ہاں باری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں بقیع کو تشریف لے جاتے اور یہ دعا فرماتے : (( السلام علیکم دار قوم مؤمنین وأتاکم ما توعدون،غدا مؤجلون وإنا إن شاء الله بکم لاحقون، اللهم اغفر لأهل بقیع الغرقد)) [1] ’’اس گھر یعنی قبرستان کے مؤمنو! تم پر سلام ہو۔ جس (موت) کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ پورا ہوچکا۔ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا کل ملنے والی ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی عنقریب تم سے آملنے والے ہیں۔ یا اللہ! اہل بقیع کی مغفرت فرما۔‘‘ 2. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جس آدمی کے لیے ممکن ہو، وہ مدینہ منورہ میں مرنے کی کوشش کرے کیونکہ جس کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی، میں اس کے حق میں قیامت کے دن سفارش کروں گا۔‘‘[2]
Flag Counter